پرویز اشرف کا دوبارہ نثار سے فون پر رابطہ‘ مسلم لیگ (ن) نے نگران وزیراعظم کیلئے تینوں حکومتی نام مسترد کر دیئے‘ شاکر اللہ کا نام واپس
اسلام آباد (این این آئی) وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نگران وزیراعظم کیلئے موزوں شخص کی نامزدگی کے حوالے سے قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان کے ساتھ رابطے میں ہیں، اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں حکومت آئین کے مطابق دو افراد کے نام پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے گی۔ وزیراعظم ہاﺅس سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم کو بتایا گیا ہے کہ قائد حزب اختلاف نے جسٹس (ر) شاکر اﷲ جان کا نام واپس لے لیا ہے۔ وزیراعظم پرویز اشرف نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق رائے کیلئے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان کے درمیان نگران وزیر اعظم کیلئے 2 بار ٹیلی فونک رابطہ ہوا، چودھری نثار نے مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کی طرف سے وزیراعظم کے پیش کردہ تین میں سے دو نام یکسر مسترد کر دئیے۔ انہوں نے کہا کہ عشرت حسین کسی حد تک ہمارے اتحادیوں کو قبول ہیں‘ دونوں میں مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق ہوا‘ وزیراعظم نے پیش کردہ تین ناموں سے ہٹ کر قائد حزب اختلاف کو نئے نام کی پیشکش کی جس پر نثار نے کہا کہ اتحادیوں سے مشاورت کے بعد بتا دونگا‘ وزیراعظم سے ٹیلی فونک رابطوں کے بعد چودھری نثار نے طے شدہ پریس کانفرنس منسوخ کر دی۔ ذرائع کے مطابق چودھری نثار نے وزیراعظم کو آگاہ کیا کہ وہ اپنی طرف سے دئیے گئے تین ناموں میں سے جسٹس (ر) شاکر اﷲ جان کا نام واپس لے رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم کی طرف سے بھی پیش کردہ تین ناموں میں سے ایک نام واپس لے لیا جائے گا اور دونوں جانب سے آئندہ چوبیس گھنٹوں میں آئین کے آرٹیکل 224اے کے تحت لکھے گئے خطوط میں دو‘ دو حتمی نام تجویز کئے جائینگے۔ مسلم لیگ (ن)‘ جماعت اسلامی‘ فنکشنل لیگ اور سندھ قوم پرست جماعتوں نے وزیراعظم کی طرف سے نگران وزیراعظم کیلئے دیئے گئے تینوں ناموں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا‘ چوبیس گھنٹوں میں کسی وقت بھی وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی ملاقات کا امکان ہے۔ وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف آئین کے آرٹیکل 224 اے کے تحت ایک دوسرے کو چوبیس گھنٹوں میں علیحدہ علیحدہ خط کے ذریعے نگران وزیراعظم کیلئے دو‘ دو نام تجویز کریں گے۔ جماعت اسلامی‘ مسلم لیگ فنکشنل اور سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے بھی چودھری نثار کو اپنی رائے سے آگاہ کرتے ہوئے تینوں حکومتی نام مسترد کر دئیے۔ مسلم لیگ (ن) سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کا حفیظ شیخ پر اعتراض ہے کہ وہ حکومت ختم ہونے سے ایک ماہ پہلے تک وزیر خزانہ رہے اس لئے ان کی ہمدردیاں پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوں گی۔ ڈاکٹر عشرت حسین مشرف دور میں اہم عہدوں پر فائز رہے اور ان دونوں نے اپنی اقتصادی پالیسیوں سے ملکی معیشت کو تباہ و برباد کر دیا۔ ذرائع کے مطابق جماعت اسلامی نے کہا کہ اگر ان دونوں میں سے کسی کو نگران وزیراعظم بنانا ہے تو پھر کیوں نہ مشرف کو ہی نگران وزیراعظم بنا دیا جائے۔ اپوزیشن جماعتوں نے میر ہزار خان کھوسو کے بارے میں اعتراض کیا ہے کہ ان کی عمر 80 سال سے زائد ہو چکی ہے اور ان کا شمار بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں کیا جاتا ہے، وہ بینظیر دور میں فیڈرل پبلک سروس کمشن کے رکن بھی رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق چودھری نثار نے وزیراعظم کو بتایا کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو نگران وزیراعظم بنانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اسے مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں، وزیراعظم نے انہیں کہا کہ ہمیں باہمی مشاورت جاری رکھنی چاہئے، اپوزیشن رضامند ہو تو وہ پیش کردہ تین ناموں سے ہٹ کر بھی کوئی نام پیش کرنے پر تیار ہیں، جس پر چودھری نثار نے کہا وہ اس پر پارٹی اور اتحادیوں سے مشاورت کے بعد جواب دیں گے۔ چودھری نثار نے وزیراعظم کو بتایا کہ انہوں نے چار بجے اپنی پریس کانفرنس رکھی تھی جس میں انہوں نے اس معاملہ پر بات کرنا تھی تاہم وزیراعظم نے انہیں درخواست کی کہ وہ ابھی پریس کانفرنس نہ کریں جس پر طے شدہ پریس کانفرنس منسوخ کر دی۔ بات چیت کے دوران دونوں جانب سے مشاورتی عمل جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد کا نام حتمی طور پر پیش کرے گی اور ممکن کوشش ہو گی کہ وہ ہی نگران وزیراعظم بنائے جائیں حکومت کی طرف سے آئندہ چوبیس گھنٹوں میں نیا نام پیش کیا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق لیگی قیادت نگران وزیراعظم کے لئے نئے نام کی پیشکش پر آج غور کرے گی۔ چودھری نثار نے کہا کہ جمہوریت کے استحکام کے لئے اپوزیشن نے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا۔ وزیراعظم نے م¶قف پیش کیا کہ چاہتے ہیں کہ نگران وزیراعظم کے معاملے پر آپ کا اعتماد حاصل ہو۔ ترجمان وزیراعظم ہا¶س کے مطابق نگران وزیراعظم کے لئے وزیراعظم چودھری نثار سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ وزیراعظم کوششیں کر رہے ہیں کہ ایک نام پر اتفاق ہو جائے۔ قائد حزب اختلاف سے معاہدہ نہ ہو سکا تو پارلیمانی کمیٹی کو 2 نام بھیجے جائیں گے۔