قومی ٹیم کو ون یونٹ میں ڈھلنا ہو گا
چودھری محمد اشرف
یہ بات حقیقت ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ پسند کیا جانے والا کھیل کرکٹ ہے جس کے شائقین کی تعداد کروڑوں میں جانی جاتی ہے، یہی وجہ سے کہ شائقین کرکٹ قومی ٹیم کو کسی بھی میدان میں ہاراتا ہوا نہیں دیکھ سکتے ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ہر میدان میں پاکستانی شاہین ہی ہمیشہ کامیاب و کامران نظر آئیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم ان دنوں جنوبی افریقہ کے دورہ پر ہے جہاں اس نے تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز مکمل کر لی ہے جس میں قومی ٹیم کو وائٹ واش شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کی گذشتہ دو سالوں سے ایشیائی وکٹوں کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے جنوبی افریقن ٹیم نے اپنی تیاری مکمل کر رکھی تھی جس میں انہوں نے فاسٹ پریک پر پاکستانی کھلاڑیوں کی کمزوریوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم گذشتہ کچھ عرصہ سے ٹیسٹ کرکٹ میں عالمی نمبر کی رینکنگ پر براجمان ہے جبکہ پاکستان ٹیم پانچویں نمبر کی ہے ایسے میں نمبر ایک اور نمبر پانچ کی ٹیموں کے درمیان کارکردگی کا جو معیار ہونا چاہیے تھا جنوبی افریقہ نے ٹیسٹ سیریز میں ثابت کیا کہ وہ واقعی دنیا کی نمبر ون ٹیسٹ ٹیم ہے۔ نمبر ون ٹیم کے خلاف ٹیسٹ سیریز ہارنے کے بعد پاکستانی شائقین کرکٹ کو توقع تھی کہ ٹی ٹونٹی اور ون ڈے سیریز میں قومی ٹیم کم بیک کرتے ہوئے کامیابی حاصل کر کے ٹیسٹ سیریز کی شکست کا داغ دھو ڈالے گی۔ ٹی ٹونٹی سیریز میں پاکستان ٹیم جس طرح مختلف دکھائی دی اس سے لگا کہ پاکستان ٹیم نے کم بیک کر لیا ہے اور حریف ٹیم کے خلاف ون ڈے سیریز میں بھی ٹف ٹائم دے گی۔ پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز کا پہلا میچ 10 مارچ کو کھیلا گیا جس میں پاکستانی ٹیم کے کپتان مصباح الحق نے ٹاس جیت کر حیران کن طور پر جنوبی افریقہ کو پہلے بیٹنگ دیدی، پاکستانی کرکٹ ماہرین کی نظر میں مصباح الحق نے ٹاس جیت کر سب پہلے بیٹنگ نہ کرنے کا غلط فیصلہ کیا تھا جس کے نتیجے میں میزبان ٹیم نے پاکستانی کپتان کی غلطی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے بورڈ پر ایک بڑا سکور بنا ڈالا۔ جنوبی افریقہ کی جانب سے میچ میں کپتان اے بی ڈی ویلیئر اور انگرام نے شاندار کھیل پیش کرتے ہوئے اپنی ٹیم کی پوزیشن مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انگرام نے 105 جبکہ اے بی ڈی ویلیئر نے 65 رنز کی شاندار اننگز کھیلی۔ پاکستانی ٹیم کے کپتان مصباح الحق جو اس میچ میں تین فاسٹ باولرز اور ایک سپنر کے ساتھ میدان میں اترے تھے جبکہ ٹیم میں سات بلے باز تھے۔ ایسے میں ٹاس جیت کر حریف ٹیم کو پہلے بیٹنگ دینے کا فیصلہ انتہائی نا مناسب تھا جس کا خمیازہ شکست کی صورت میں برداشت کرنا پڑ گیا ہے۔ پاکستان ٹیم کی ناقص کارکردگی اور بری شکست کے باعث اسوقت تنقید کا تمام رخ ٹیم کے کھلاڑیوں پر ہے۔ ہر زبان پر ایک ہی بات ہے کہ ٹی ٹونٹی اور ٹیسٹ ون ڈے ٹیم کے کپتانوں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے قومی ٹیم کو شکست ہو رہی ہے۔ پہلے ایک روزہ میچ سے قبل میڈیا میں ایسی باتیں بھی منظر عام پر آئی تھیں جس میں کہا گیا تھا کہ محمد حفیظ اور مصباح الحق کے درمیان اختلافات شدید ہونے پر محمد حفیظ نے مصباح الحق پر بیٹ اٹھا لیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ واقعہ پر پردہ ڈالنے کے لیے ان خبروں کی تردید کر رہا ہے ایسی باتوں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ جنوبی افریقہ سے ٹی ٹونٹی کے کپتان جو اس واقعہ کے بعد سے سخت تنقید کا شکار چلے آ رہے ہیں نے میڈیا میں مصباح الحق کے حق میں بیان دیکر ایسا تاثر دیا ہے کہ ان کے اور مصباح الحق کے درمیان کسی قسم کے اختلافات نہیں ہے۔ اگر واقعی ایسا کچھ نہیں ہے تو دوسری جانب اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ اگر کوئی ایسی چیز جنوبی افریقہ میں نہیں ہوئی تو پاکستان چیئرمین پی سی بی چوہدری ذکاءاشرف کی جانب سے واقعہ کا نوٹس کیوں لیا گیا ہے۔ کرکٹ حلقوں میں یہ بات زد عام ہے کہ جب سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے موجودہ چیئرمین چوہدری ذکاءاشرف نے چارج سنبھالا ہے ٹیم میں گروپ بندی کے عنصر نے ایک مرتبہ پھر جنم لینا شروع کر دیا ہے۔ چیئرمین پی سی بی کھلاڑیوں کو بااختیار بنا رہے ہیں ماضی میں چیئرمین پی سی بی اعجاز بٹ کے بارے میں یہ باتیں عام تھیں کہ انہوں نے اپنے سخت اصولوں پر عمل کر کے ٹیم سے گروپ بندی کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اعجاز بٹ نے اپنے کردار اور عمل سے ثابت کیا کہ کوئی بھی کھلاڑی ڈسپلن سے بڑا نہیں ہوتا۔ چیئرمین پی سی بی ذکاءاشرف کو بھی چاہیے کہ وہ کھلاڑیوں کے نخرے اٹھانے کی بجائے ان کے خلاف سخت ایکشن لیں تاکہ ایک مثال قائم ہو۔ موجودہ وقت میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ذکاءاشرف پی سی بی آئین کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں جس کی بحالی ضروری بھی ہے کیونکہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی جانب سے ایسے تمام کرکٹ بورڈز کو 30 جون 2013ءکی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے کہ وہ اپنے بورڈز میں سیاسی عمل دخل ختم کر کے جمہوریت کو جنم دیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کا انتخاب بھی سیاسی ہے کیونکہ بورڈ کے پیٹرن انچیف صدر مملکت ہوتا ہے جو اپنے من پسند اور اعتماد والے شخص کو اس منصب کے لیے منتخب کرتا ہے۔
جنوبی افریقہ میں پاکستان ٹیم کی ناقص کارکردگی پر سابق ٹیسٹ کرکٹرز نے ٹیم مینجمنٹ اور سلیکشن کمیٹی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ سابق کپتان عامر سہیل کا کہنا ہے کہ پاکستان ٹیم کی شکست کی ذمہ داری سلیکشن کمیٹی پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے ٹیسٹ اور ون ڈے سیریز کے لیے ٹیم کا انتخاب کرتے ہوئے میرٹ سے ہٹ کر کھلاڑیوں کا انتخاب کیا۔ جنوبی افریقہ کے خلاف پہلے ون ڈے میں ٹیم میں تین فاسٹ باولرز اور چار سپن باولر تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سعید اجمل جیسے ورلڈ کلاس باولر کے موجودگی میں مزید تین سپن باولرز کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ٹیم مینجمنٹ بھی اپنی من مانیاں کر رہی ہے جس کی وجہ سے بھی شکست ٹیم کا مقدر بن رہی ہے۔ تادم تحریر پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان سیریز کا دوسرا ون ڈے میچ شروع نہیں ہو سکا تھا جس میں دو سے تین تبدیلیوں کی پیش گوئی کی جا رہی تھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر پاکستان ٹیم نے جنوبی افریقہ کے خلاف کامیابی حاصل کرنی ہے تو اسے ون یونٹ میں ڈھلنا ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام کھلاڑی انفرادی کارکردگی دکھانے کے ملک و قوم کے لیے کھیل پیش کریں۔