• news

میانوالی یونیورسٹی کیمپس اور علووالی؟

میانوالی میں سرگودھا یونیورسٹی کیمپس قائم ہوا ہے۔ میں اس کا ذکر ابھی کروں گا۔ میانوالی میں ایک بستی ہے جس کا نام علووالی ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ میں وہاں کبھی گیا ہوں۔ میں میانوالی میں تھا تو میں نے اس کا نام بہت سنا تھا۔ یہاں دریائے سندھ کے پانیوں نے کٹاﺅ شروع کر دیا تھا جس کے لئے لوگ پریشان ہیں۔ یہ بستی برباد نہیں ہونا چاہئے۔ کچھ جگہوں میں ایسا ہوتا ہے کہ ان کی کشش کم نہیں ہوتی۔ کئی دفعہ ایسی جگہوں پر گیا ہوں کہ مجھے اب ان کا نام بھی یاد نہیں۔ گمنام بستیوں سے بے نام بستیاں بہتر ہوتی ہیں۔ ایسی بستیاں جہاں بہت کچھ ہو ان کی حفاظت کرنا چاہئے۔ میانوالی کے لئے بات کرتے ہوئے مجھے سب سے پہلے ڈی سی او ذوالفقار احمد کا خیال آتا ہے۔ ایک ملاقات ان سے ہوئی ہے وہ اچھے دل و دماغ کے آدمی ہیں۔ علاقے کے لئے ان کے دل میں آرزو اور ارادہ موجود ہے۔ کسی ضلع کا ڈی سی جسے اب ڈی سی او کہتے ہیں اور کسی شعبے کا سیکرٹری چاہے تو اس ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ مگر اس ملک کے حالات بگڑتے جا رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمارے افسران میں کوئی کمی کوتاہی ہے۔ آج کل لوگ پریشان ہیں۔ انہیں فکرمندی ہے کہ ہمارے حکمران اور ہمارے نمائندگان کیا کر رہے ہیں۔ اب وہ یہ بھی سوچنے لگے ہیں کہ ہمارے افسران کیا کر رہے ہیں۔ روٹین کی کارروائی پر اکتفا کرنا کارکردگی نہیں ہوتی۔ حکمران افسران آئے اور چلے گئے۔ وہی یاد رہتا ہے جس نے لوگوں کو کچھ تو خوش کیا ہو۔ کوئی ایسا کام جسے یاد رکھا جائے کئی وزیر شذیر کئی حکمران کئی افسران اور کئی نمائندگان بلکہ وہی وزیر شذیر وہی حکمران وہی افسران اور وہی نمائندگان؟ حیرت ہے کہ لوگ ووٹ دیتے ہیں اور وہی لوگ آتے رہتے ہیں اور جاتے رہتے ہیں پھر آ جاتے ہیں پھر چلے جاتے ہیں۔ لوگوں کو افسروں کے نام بھی یاد نہیں رہتے مگر انہیں یہ تو یاد ہے کہ ہم پر جب مصیبت آئی تو کون ہمارے پاس آیا۔علووالی سے کئی لوگوں نے خطوط لکھے جو نوائے وقت میں شائع ہوئے۔ دکھی لوگوں کا غم و غصہ جائز لگتا ہے۔ دریائے سندھ کی غصیلی لہروں نے شہر سے چھیڑ خانی شروع کر رکھی ہے۔ کئی مکانات گر گئے ہیں۔ جو بچے ہیں وہ گرنے والے ہیں۔ کچھ لوگوں نے مجھے فون کئے وہ اتنے غصے میں تھے کہ ان کے بقول ہمارے مکان گرائے جا رہے ہیں جو بچا سکتا ہے۔ نہیں بچاتا تو وہ بھی اس زیادتی میں شریک ہے لوگوں نے بتایا کہ کچھ لوگ آئے جو ہیلی کاپٹروں میں فضائی جائزہ لے کے چلے گئے۔ انہوں نے ہماری زمین پر اترنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ کہتے ہیں کہ ان لوگوں میں ہمارے نمائندے بھی تھے جو ہمارے ووٹوں پر عیش کر رہے ہیں اور اب بھی ووٹ لینے آ جائیں گے۔ میری گزارش ان پریشان لوگوں سے یہ ہے کہ وہ پھر انہی لوگوں کو ووٹ دیں گے جو دکھوں کو کم نہیں کرتے دکھوں میں شریک بھی نہیں ہوتے۔ دکھوں میں شریک ہونا بھی ایک نیکی ہے اور ہم نیکی کرنا بھول گئے ہیں۔ ہم اپنے ساتھ خود بھی نیکی نہیں کرتے۔میں ممبران اسمبلی سے تو کیا گزارش کروں مگر میں ڈی سی او ذوالفقار صاحب سے ضرور عرض کروں گا کہ وہ لوگوں کے مسائل کا مداوا کریں۔ ان کے ساتھ ملاقات میں اے سی راجہ محمد اشرف بھی آ گئے تھے۔ ممتاز مقامی صحافی محمودالحسن خان بھی میرے ساتھ تھے۔ بہت اچھی گپ شپ رہی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ میانوالی کے ساتھ سرگودھا یونیورسٹی کا ایک سیکشن بھی بنوایا ہے۔ ایک بلڈنگ اس حوالے سے مختص کر دی گئی ہے۔ اس طرح میانوالی کے طالب علموں کے لئے آسانی بھی ہو گی اور ان کے لئے یہ موقع ہو گا کہ وہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔ اب بھی بہت طلبہ و طالبات میانوالی سے سرگودھا یونیورسٹی میں جاتے ہیں۔ بعض اوقات میانوالی کے قابل طلبہ و طالبات پر سرگودھا کے بچوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ وہاں وائس چانسلر ڈاکٹر اکرم چودھری اہل علم آدمی ہیں۔ وہ اس مادر علمی کے لئے بھرپور کوشش کر رہے ہیں مگر وہ اپنے کچھ سٹاف کے سامنے بے بس ہیں۔ کئی شعبوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو میرٹ پر روابط اور دوسرے معاملات کو ترجیح دیتے ہیں اور وائس چانسلر کچھ نہیں کر سکتے۔ جبکہ سرگودھا یونیورسٹی کے لئے ان کی خدمات کا اعتراف دل میں ہے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی اورنٹیل کالج لاہور سے سے سرگودھا آئے ہیں۔ لاہور میں ان سے ملاقات رہتی تھی۔ وہ جذبوں والے آدمی ہیں مگر ابھی ماحول پر پوری طرح قابو پانا باقی ہے۔ انہوں نے ہی میانوالی میں یونیورسٹی کو آگے بڑھانے کا سوچا ہے اور یہ بات خوش آئند ہے کہ وہاں ذوالفقار احمد موجود ہیں جن کے بھرپور تعاون سے تمام باتیں سازگار ہوتی چلی گئی ہیں۔ میں اب میانوالی گیا تو سرگودھا یونیورسٹی کیمپس میانوالی بھی جاﺅں گا۔میانوالی جیسے دور افتادہ علاقے میں یونیورسٹی کیمپس کا قیام ایک نعمت کی طرح ہے۔ اس کے لئے ڈاکٹر اکرم چودھری بھی شکرئیے کے مستحق ہیں۔ کیمپس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد الیاس طارق سے بات ہوئی وہ بہت سادہ اور دیہاتی مزاج کے اچھے آدمی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ابھی پانچ چھ شعبے کام کر رہے ہیں۔ اکتوبر تک یہ تعداد پندرہ تک پہنچ جائے گی۔ اس ساری جدوجہد میں ضلعی حکومت نے بہت تعاون کیا ہے۔ ابھی کچھ کمرے گورنمنٹ کالج میانوالی سے لئے گئے ہیں۔ اسے توسیع دینے کے لئے نئی عمارت بنانے کا کام جاری ہے۔ الیاس طارق نے کہا کہ ابھی تو ہم ”ادھاری“ جگہ پر کام کر رہے ہیں۔ طلبہ و طالبات کی تعداد ابھی تو 500 ہے جو اکتوبر تک تقریباً دگنی ہو جائے گی۔ یہ بات اطمینان بخش ہے کہ طالبات کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔ اپنے علاقے میں تعلیمی ترقی کا یہ زمانہ میرے لئے خوشگوار حیرت کا باعث ہے۔

ای پیپر-دی نیشن