• news

نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق رائے کی خواہش دم توڑ گئی

لاہور (فرخ سعید خواجہ) نگران وزیراعظم کے نام پر و زیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان اتفاق ہونے کی خواہش دم توڑ گئی ہے اور اب معاملہ یقیناً پارلیمانی کمیٹی کے پاس جائے گا۔ دراصل حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس سلسلے میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی۔ قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان کی جانب سے دئیے گئے تین ناموں میں سے جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد پر مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام (ف)، پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سمیت سندھ اور بلوچستان کی قومیت پرست جماعتوں کا تو اتفاق ر ائے تھا مگر جسٹس (ر) شاکر اللہ جان پر مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد دو سال گزرنے کی شرط پوری نہ ہونے کے باعث اعتراض سامنے آیا تھا۔ اس لئے آخری مرحلے میں ان کا نام واپس لے لیا گیا جہاں تک رسول بخش پلیجو کا تعلق ہے ان پر بھی اعتراضات سامنے آئے تھے گویا اپوزیشن کی جانب سے جس نام پر کلی اتفاق ہوا وہ جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد ہی تھے۔ دوسری جانب حکمران پارٹی کو یہ نام قبول نہیں۔ اس کی طرف سے مشرف دور کے وزیر خزانہ سندھ، وزیر مملکت خزانہ اور چند ہفتے پہلے تک زرداری حکومت میں وزیر خزانہ رہنے والے حفیظ شیخ کا نام آئی ایم ایف نے دیا یا سپر پاور نے، اسے اپوزیشن بالخصوص مسلم لیگ (ن) نے مسترد کر دیا۔ عشرت حسین سابق گورنر سٹیٹ بنک کو بھی ”کسی“ کا پسندیدہ اور مشرف کا حامی قرار دیا جا رہا ہے۔ ان کے نام پر بھی اتفاق رائے ممکن نہیں جہاں تک جسٹس (ر) منیر ہزار کھوسو کا تعلق ہے انہیں پیپلز پارٹی کے دوست کی حیثیت سے مسترد کیا جا رہا ہے۔ صوبائی حکومتوں میں نگران وزرائے اعلیٰ کے ناموں پر بھی ماسوائے خیبر پی کے کے اتفاق نہیں ہو سکا۔ اس تمام صورت حال میں لگتا ہے کہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے ہاتھ سے نکل کر بالآخر الیکشن کمشن کے پاس جائے گا۔ اپوزیشن کا خیال ہے کہ ناصر اسلم زاہد کے نام پر بالآخر قرعہ فال نکلے گا اور چیف الیکشن کمشنر انہیں نگران وزیراعظم نامزد کر سکتے ہیں جبکہ صوبائی وزرائے اعلیٰ بھی صوبائی الیکشن کمشن کی فائنل کریں گے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث انتخابی مہم میں خاصی تلخی موجود رہے گی۔ ذرائع کے مطابق الیکشن کمشن غور کر رہا ہے کہ انتخابی مہم میں خون خرابے سے بچنے کے لئے انتخابی مہم کو جلسوں کی بجائے الیکٹرانک میڈیا پر سیاسی رہنما¶ں کے خطابات تک محدود کر دیا جائے تاہم اس تجویز پر اسی صورت میں عمل ہو سکے گا اگر سیاسی جماعتیں برضا و رغبت اس پر متفق ہو جائیں۔ 

ای پیپر-دی نیشن