قومیتوں کو وسائل، سرزمین پر اختیار ملیں تو ایسا پاکستان تاقیامت رہے گا: محمود اچکزئی
کراچی + کوئٹہ (آئی اےن پی) پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ اگر پاکستان میں بلوچ، پشتون، پنجابی، سرائیکی اور سندھی اقوام کو ان کی سرزمین اور وسائل پر اختیار دیا جاتا ہے اور افغانستان میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جاتی ایسا پاکستان قیامت تک رہے گا اور ہم اسے آباد کہیں گے، ایوب خان کے خلاف بننے والی تحریک میں شامل بلوچ، پنجابی، بنگالی، سندھی اکابرین کا یہ تحریری معاہدہ تھا کہ ون یونٹ کی بحالی کے بعد زبان، ثقافت کی بنیاد پر صوبے تشکیل دیئے جائیںگے لےکن افسوسناک بات یہ ہے کہ ون یونٹ کے خاتمے کے بعد پشتون وطن کو انگریز استعمار کے فارمولے پر نہ صرف 3 حصوں میں تقسیم برقرار رکھا بلکہ بلوچستان کے پشتونوں کے ساتھ ظلم یہ ہوا کہ انہیں بلوچ بھائیوں کے ساتھ ایک صوبے میں شامل کیا گیا اس غیر سیاسی، غیر فطری شمولیت کو نہ ہم نے پہلے دن تسلیم کیا اور نہ آئندہ تقسیم کریں گے ہمیں بلوچوں کی ایک انچ زمین پر قبضہ کرنے کی خواہش نہیں اور نہ ہی پشتون افغان وطن کی سرزمین کی ایک انچ کسی کو دینے کے لئے تیار ہےں۔ گذشتہ روز انٹرویو میں محمود خان اچکزئی نے کہا کہ بلوچستان میں پشتون اور بلوچ اس وقت تک خوش رہ سکتے ہیں کہ جب تک متحدہ پشتون صوبہ نہیں بنتا اس وقت تک بلوچ اور پشتون اس صوبے میں زندگی کے ہر شعبے میں برابر کا حقدار ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو متفقہ طور پر چلانے کا ایک ہی فارمولا ہے کہ پشتون، بلوچ، سندھی، سرائیکی اور پنجابی کے وسائل پر ان کے حق ملکیت تسلیم کیا جائے اور اس سرزمین سے افغانستان میں کوئی مداخلت نہیں ہو گی۔ اس حوالے سے ہمیں قومی اور بین الاقوامی ضمانت دینا ہو گی۔ انہوںنے کہا کہ میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ملک سے باہر ہونے کے دوران پاکستان میں متحدہ مجلس عمل ، پونم اور ڈیموکریٹک اتحاد سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے تشکیل دیئے تھے اور ان سب نے ملکی سیاست میں فوج اور جاسوسی اداروں کے کردار کے خاتمے کے لئے تحریک چلائی یہی وجہ تھی کہ 26 سیاسی جماعتوں نے لندن میں اے پی سی میں 8 نکات جن میں فوجی جرنیل کی موجودگی میں انتخابات میں حصہ نہ لےنا اور دیگر شامل تھے پر متفق ہو گئے ہمارے، جماعت اسلامی، عمران خان سمےت دیگر کے انتخابات میں حصہ نہ لینے کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ڈرون حملے صرف پتھروں پر نہیں ہورہے بلکہ اب تو پاکستانی ہیلی کاپٹر اور طیارے بھی ان علاقوں میں استعمال ہو رہے ہیں اگر ان کی وجوہات کو ختم کیا جائے تو طالبان رک جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں میاں محمد نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور سید منور حسن پر مشتمل ان لوگوں سے مذاکرات کے لئے کمیٹی بنائی گئی ہے ہم چاہتے ہیں کہ اس کمیٹی کو وسعت دی جانی چاہےے اس میں فوج اور خفیہ اداروں کو بھی بے شک شامل کیا جائے کرزئی، سیاف، مجددی، گیلانی سے میں بات کروں گا وہ بھی کمیٹی بنائے۔ 3 ماہ کے اندر اندر یہ افغان جنگ وجدل ختم ہوجائے گا مگر پہلی شرط یہ ہے کہ ایران پاکستان سمےت دیگر کو افغان کی سالمیت کا احترام کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کی سربراہی میں عرب، عجم، کمیونسٹ تمام نے افغانستان میں جنگ لڑی جنہیں اس میں استعمال کیا گیا انہیں وہ اب بھی اچھی طرح جانتے ہیں انہیں آپس میں بٹھا کر مسئلے کا حل نکالا جائے۔ پشتونوں کو اب کچھ نہیں ہوگا انہوں نے جتنا مرنا تھا اتنا مرچکے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ فاٹا کے 7 ایجنسیوں میں پولیٹیکل ایجنٹ کی اجازت کے بغیر لوگ گھریلو ضروریات کی اشیا تک نہیں لے جا سکتے لےکن بیرونی دنیا سے اتنے زیادہ لوگ یہاں کیسے آئے وہ کس طرح اتنے مضبوط ہوئے کہ اب وہ مقامی افراد کو بھی مار رہے ہیں۔ امریکہ سے ہم التجا کریں گے کہ وہ انہیں نہ مارے ہم ان کے ممالک سے بھی اپیل کریں گے کہ وہ انہیں معاف کرے جو نہ جانا چاہے وہ نہ جائے مگر بندوق اٹھانے اور مظلوم پشتون قوم کی قتل عام کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔ باجوڑ اور دیگر میں مزید ڈرامے نہیں مانیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پشتون پاکستان کو نہیں توڑنا چاہتے مگر انہیں دیگر اقوام کی طرز پر برابری اور عزت و احترام دینا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ آج بدقسمتی سے 70 لاکھ افغان ملک سے باہر محنت مزدوری کر رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی اور پشتونخواہ میپ ایک جماعت تھی ان کی لیڈر شپ اور فکر بھی ایک تھی انہوں نے ہند اور بعد میں پاکستان میں مشترکہ جدوجہد کی مگر بعض نقطوں پر اختلافات کے باعث یہ الگ ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پشتونوں کے ایک لاکھ 50 ہزار مربع میل جو بولان سے چترال تک ہے کو 4 انتظامی یونٹوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے چاروں صوبوں پر آئین کے 280 دفعات لاگو ہےں مگر فاٹا پر 280 میں سے صرف 3 کا اطلاق ہوتا ہے لوگ اس کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ فاٹا کے لوگوں کو یہی گلہ ہے وہ کہتے ہیں کہ آﺅ بیٹھےں اگر کسی کے پاس اس سلسلے میں نئے تجاویز ہےں تو وہ بتائے۔ انہوں نے کہا کہ ایف سی آر کو توڑ کر فاٹا میں ون مین ون ووٹ کا اختیار دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ گورنر کا خےبر پی کے کے دیگر اور فاٹا سے متعلق اختیارات میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ہم چاہتے ہیں کہ گورنر کا انتخاب فاٹا کے لوگوں کے ووٹ کے ذریعے عمل میں لایا جائے تاکہ وہ صدر مملکت سے فاٹا کے لوگوں کے مشکلات اور دیگر بارے بات کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ بزور طاقت فاٹا کے لوگوں پر آئین کے دفعات لاگو کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے خواتین کی نمائندگی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر محمود خان اچکزئی نے کہا کہ خواتین کو کھلونا نہیں بنایا جانا چاہئے انہیں حقوق دینا ہوں گے یورپ اور امریکہ میں بھی آج تک خواتین کو حقوق حاصل نہیں ہیلری کلنٹن اور تھچر کو بھی بہت زیادہ جدوجہد کے بعد عہدے ملے۔ پشتون جدوجہد میں خواتین نے بہت زبردست کردار ادا کیا ہے انہیں سیاست کا حق ہے مگر بتایا جائے کہ کیا اسلام کے دعوےداروں اور دےگر نے خواتین کو ان کا حق دیا ہے اب تک انہیں بنیادی حقوق نہ دینے والے کہتے ہیںکہ ہمارے ہاں خواتین آزاد ہےں۔ پنجاب سمےت کسی بھی جگہ خواتین کو حقوق حاصل نہیں ہمیں انہیں ان کے حقوق دے کر پاﺅں پر کھڑا کرنا ہو گا۔
محمود اچکزئی