• news

دھمال یا ڈانس اور سفید گھوڑا

مجھے نوازشریف کے ایک پسندیدہ اور نوازے گئے سینئر ترین کالم نگار کی تحریر سے پتہ چلا کہ ق لیگ کے کلچرل ونگ کے زیر اہتمام تقریب میں ایک لاہوری خاتون نے دھمال ڈالی جسے چودھری شجاعت اور مشاہد حسین کے علاوہ مسلم لیگی خواتین و حضرات نے بڑے غور سے دیکھا۔ انہیں یہ مظاہرہ غور و فکر کے ساتھ دیکھنا چاہئے تھا۔ چودھری شجاعت کے لئے لوگ جانتے ہیں کہ وہ پاکستان کے لئے ایک مثبت اور جرات مندانہ سوچ رکھتے ہیں۔ انہیں یہ دھمال یا ڈانس نہیں دیکھنا چاہئے تھا۔ پھر اس پر زیادتی یہ کہ ممتاز کالم نگار کو اس رنگین محفل میں بلایا نہیں گیا تھا۔ اس کے لئے چودھری صاحب کو یہ طعنہ بھی سننا پڑا کہ چودھری برادران محترم کالم نگار کے گھر جاتے رہے ہیں جبکہ انہیں معلوم ہے کہ وہ نوازشریف کے کالم نگار ہیں۔ وہ اتنے ثابت قدم ہیں کہ نوازشریف کے علاوہ کسی کے کالم نگار نہیں ہو سکتے۔ انہیں آجکل صرف یہ فکر لگی ہوئی ہے کہ کہیں عرفان صدیقی ان سے آگے نہ نکل جائیں۔ اس حوالے سے عبدالقادر حسن کے اس جملے کے بعد کوئی نامور کالم نگار اس مقابلے میں کھڑا نہیں ہو سکتا۔ ”اب ہر سیاسی جماعت کو اپنا اپنا عطاالحق قاسمی تلاش کر لینا چاہئے“۔ اس میں پوری کامیابی کسی جماعت کو نہیں ملے گی۔ ایک اعلیٰ کالم نگار جو تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ انتظامی اہلیتوں سے بھی مالا مال ہو۔ بیرون ملک اور اندرون ملک جسے بہترین سفارت کاری کا تجربہ ہو۔ جسے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت میں فرق کرنا آتا ہو۔ خواہ دونوں میں کوئی فرق نہ ہو۔ جو حال پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے سیاستدانوں کا ہے۔ وہی حال دونوں جماعتوں کے کالم نگاروں کا ہے۔ بات تو دھمال کی ہو رہی ہے۔ ابھی اس میں بھنگڑا کو نہیں لایا گیا۔ میں پریشان ہوں کہ شادی بیاہ پر خوشی کے اظہار کے لئے عورتیں اور مرد دونوں ناچتے ہیں اور جی بھر کے ناچتے ہیں۔ اُسے کیا کہا جائے گا۔ بس اسے سیاسی نہیں ہونا چاہئے۔ سیاستدانوں نے عوام کو پانچ سال تک جس وحشیانہ طریقے سے نچایا ہے۔ اُسے کیا کہا جائے گا؟ دھمال یا بھنگڑا اور ڈانس میں فرق کرنا مشکل ہو گا۔ ان دونوں میں وہی فرق ہے جو اردو اور انگریزی زبان میں ہے۔ اردو ہماری قومی زبان ہے اور ہم سیاستدان افسران حکمران اینٹی پاکستان اپنی قومی زبان کو پسند ہی نہیں کرتے۔ انہیں ہر وہ بات ناپسند ہے جس کے ساتھ قومی کا لفظ لگ جائے۔ قومی ترانہ افسران سیاستدان حکمران عوامی نمائندگان اور امیر کبیر صاحبان کو نہیں آتا۔ قومی لباس وہ پہنتے ہی نہیں جبکہ بھٹو صاحب نے یہ لباس پہنا اور بڑے میاں صاحب میاں محمد شریف نے کبھی پینٹ کوٹ نہ پہنا۔ پینٹ کوٹ پہننا کوئی برائی نہیں۔ اب تو ساری دنیا یہ لباس پہنتی ہے مگر قومی لباس کی تضحیک اچھائی نہیں ہے۔ زبردست کالم ہے بالکل پتہ نہیں چلتا کہ وہ دھمال یا ڈانس کے خلاف ہیں یا حق میں ہیں۔ ویسے کالم دلچسپ ہے ایک دوست بتا رہا تھا کہ کسی نے اُسے فون کیا کہ فوراً ٹی وی لگاﺅ اور مفت میں ڈانس دیکھو۔ چودھری شجاعت اور مشاہد حسین بھی مفت ڈانس دیکھ رہے ہیں۔ نجانے ہمارے سیاستدان کیا کچھ دیکھتے ہیں۔ پوچھا گیا کہ تم دیکھ رہے ہو۔ بڑے غور سے دیکھ رہا ہوں۔ خاتون دھمال غضب کی ڈال رہی ہے۔ ڈانس اور دھمال میں فرق یہی ہے کہ دھمال ڈالی جاتی ہے ڈانس کیا جاتا ہے۔ اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ لڑکیوں کے کالجوں میں باقاعدہ یہ مظاہرے ہوتے ہیں۔ وہ دھمال ہے یا ڈانس۔ اور وہاں نجی ٹی وی چینلز والوں کو کون بلاتا ہے؟ تاکہ ساری قوم وطن کی بیٹیوں کو دیکھے اور غور کرے کہ وہ ناچتی ہیں یا دھمال ڈالتی ہیں۔ ٹی وی چینلز پر بھارتی فلموں کے ”منتخب“ ڈانس دکھائے جاتے ہیں۔ انہیں سب دیکھتے ہیں۔ جن لوگوں نے بلھے شاہ کا جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کے بچے بلھے شاہ کے مزار پر دھمال ڈالتے ہیں۔ جنرل ضیاالحق کو یاد کیا گیا کہ اس نے محترم کالم نگار کے خلاف کارروائی کی تھی جبکہ ان کا بہت وقت ایوان صدر میں اور آئی ایس پی آر میں صدیق سالک کے پاس گزرتا تھا۔ ان وقتوں میں کئی صحافیوں کو نوازا گیا۔ ان کا ذکر بھی کیا جائے گا۔ تب پنجاب میں نوازشریف اقتدار میں آ چکے تھے۔ ان صحافیوں نے بھٹو صاحب کے زمانے میں جیلیں وغیرہ کاٹی تھیں۔ ہمارے دوست نے نجانے اس زمانے میں کیا کاٹا تھا۔ کہتے ہیں کہ آدمی وہی کاٹتا ہے جو بوتا ہے۔ یہ خوش قسمتی کی بات ہے کہ بعض لوگوں کی فصلیں خوب لہراتی ہیں۔ نوازشریف کے لئے جنرل ضیا نے کہا کہ اللہ کرے میری زندگی ان کو لگ جائے۔ وہ آجکل یہی زندگی گزار رہے ہیں۔ کوئی اپنے محسن جنرل ضیا کا نام بھی اُن کی زبان سے نکلوا دے۔ جو نوازشریف کو اپنا لیڈر مانتے ہیں تو پھر جنرل ضیا کے بارے میں کیا خیال ہے۔ جنرل ضیا نے مشاہد حسین کو پنجاب یونیورسٹی سے نکالا تھا۔ وہ دانشور سیاستدان ہے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ساتھ وابستہ ہے۔ مرحوم حمید نظامی کے جگری دوست کرنل امجد حسین کا بیٹا ہے۔ وہ بھٹو کا دیوانہ تھا۔ مگر پرویز رشید اور راجہ انور کی طرح نوازشریف کے ساتھ مل گیا۔ آجکل چودھری شجاعت کے ساتھ ہے۔ دھمال بھی چودھری صاحب کے ساتھ دیکھی۔ وہ ابھی تک ”جوان“ ہے۔ دھمال نہ دیکھنے کا مشورہ نہیں دیا جا سکتا۔ سینئر صحافی مصطفٰی صادق جنرل ضیا کی کابینہ میں تھے۔ پہلے ان کے تعلقات بھٹو صاحب کے ساتھ بھی تھے۔ آج بھی کئی صحافی بھٹو اور جنرل ضیا دونوں کے آدمی سمجھے جاتے ہیں۔ بھٹو نے نوائے وقت کے اشتہار بند کئے ہوئے تھے۔ مصطفٰی صادق نے اصرار کر کے بھٹو صاحب سے مجید نظامی کی ملاقات کرا دی۔ اٹھتے وقت بھٹو نے اشتہارات کی بات کی۔ مجید صاحب نے کہا کہ میں نے اس کے لئے کبھی کسی سے بات نہیں کی۔ اے پی این ایس کے سالانہ اجلاس کی صدارت صدر جنرل ضیا کر رہے تھے۔ اے پی این ایس کے صدر کے طور پر نظامی صاحب نے صدر ضیا کے منہ پر کھری کھری سُنائیں۔ لوگ حیران تھے کہ اب ضیا کیا کہیں گے۔ انہوں نے کمال عاجزی سے کہا کہ مجید نظامی جابر سلطان کے سامنے کلمہ¿ حق بلند کرتے ہیں مگر میں تو ایک صابر سلطان ہوں۔ مجید نظامی کی جانفشانیاں اُن کے صبر کا اجر تھیں۔ مگر کچھ صحافی اور کالم نگار صابر سلطان کے صبر کا اجر کھاتے رہے۔ مجھے آج ایک آدمی نے فون کیا۔ میں اُسے نہیں جانتا وہ بہت دکھی تھا۔ کہنے لگا۔ فلاں ٹی وی چینل پر ڈاکٹر مبشر حسن ممکن ہے ان کے صحافی کزن ہیں۔ یہ ثابت کرنے کے لئے سر دھڑ اور اپنے سارے اعضا کا زور لگا رہے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بنا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ بات ڈانس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ میرے محبوب ایک بہت بڑے درویش جینوئن عالم دین کے فرزند کالم نگار اس حوالے سے بھی کالم لکھیں۔ ایک بابا جی بچوں کو فلم وغیرہ دیکھنے سے منع کرتے تھے۔ ایک دفعہ پتہ چل گیا کہ بچے فلم دیکھ کے آ رہے ہیں۔ وہ بہت خفا ہوئے۔ پوچھا کہ کیا فلم تھی۔ اس میں کوئی ایسی ویسی بات تو نہ تھی۔ بتایا گیا کہ سفید گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتی ہوئی ایک بہت خوبصورت لڑکی ایک ہاتھ میں لگام اور دوسرے ہاتھ میں تسبیح پکڑے ہوئے کچھ پڑھ رہی تھی۔ سہمے ہوئے بچے سوچ رہے تھے کہ بابا جی اس کے بعد ہمیں معاف کر دیں گے۔ بابا جی کہنے لگے۔ یہ تو اچھی فلم ہے۔ میں بھی دیکھوں گا۔ بچے حیران ہوئے تو بابا جی نے کہا کہ مدت ہوئی ہے میں نے سفید گھوڑا نہیں دیکھا۔ 

ای پیپر-دی نیشن