• news

نگران وزیراعلیٰ کیلئے ایک اور کالم؟

میں نے کل ہی تو کالم لکھا تھا۔ جس میں یہ بات پسندیدہ تھی کہ پیپلز پارٹی نے اپنی اتحادی جماعتوں سے صلاح مشورے کے بعد پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کے طور پر دو نام پیش کئے تھے ایک نام ریٹائر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سید زاہد حسین کا بھی تھا۔ ان کی اچھائیوں اور بھلائیوں کے لئے ہر آدمی معترف اور مداح ہے میرا خیال ہے کہ ان کے لئے مسلم لیگ ن کے شریف لوگ اعتراض نہیں کریں گے مگر آج جو نام پیپلز پارٹی کے راجہ ریاض کی طرف سے سامنے آئے ہیں۔ ان میں جسٹس سید زاہد حسین کا نام نہیں۔ یہ افسوس ناک ہے۔ اپنے فیصلے واپس لینے کے لئے پیپلز پارٹی والوں کا ریکارڈ بڑا غلط ہے۔ اس کے لئے نااہل وزیراعظم گیلانی سمیت بدنام ہوئے۔ رات کو چیف جسٹس کے خلاف بڑھکیں مارتے اور رات کو ہی ان کے ڈنر میں بغیر دعوت کے چلے جاتے۔ راجہ ریاض بھی بے معنی اور فضول بیانات کے بعد ان کی واپسی کے لئے بہت ”پسندیدہ“ ہیں۔ رانا ثناءاللہ خواہ مخواہ ان کو اہمیت دیتے ہیں ورنہ وہ خود اپنی رسوائی کے لئے خود کفیل ہیں۔ سیاست میں پھنسے ہوئے لوگ راجہ صاحب کو بہت انجوائے کرتے ہیں۔ انہیں پتہ نہیں لگتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ انہیں دوسروں کا بھی پتہ نہیں چلتا کہ اصل میں وہ کیا کہہ رہے ہیں۔
یہ بہت افسوسناک ہے کہ ایک اچھے انسان بھلے مانس آدمی اور ایک غیر متنازع شخص کے لئے اتنی بے حسی اور بے خبری کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اس طرح ہماری اور وکلاءکی توہین کی گئی ہے۔ ان کی جگہ میاں عامر محمود کا نام نگران وزیراعلیٰ کے لئے تجویز کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ہم ان تینوں ناموں میں سے کسی کا نام واپس نہیں لیں گے مگر خود ہی جسٹس زاہدحسین کا نام واپس لے کر بتا دیا ہے کہ ہم کوئی نام واپس لینا چاہیں تو ہمیں اجازت ہے؟ جسٹس زاہد حسین کے ساتھ اب راجہ صاحب کو کیا کام ہے؟ سیاست کو مفاد اور عناد کے دائرے سے نکلنے ہی نہیں دیا جاتا ہمارے سیاستدانوں کو کچھ کام تو بے غرضی اور بے نیازی سے کر لینا چاہئیں۔
برادر عامر محمود نے راجہ ریاض کی اس ”خود غرضانہ مصلحت“ کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں صحافیانہ ذمہ داریوں کی وجہ سے یہ عہدہ قبول نہیں کر سکتا۔ انہوں نے میڈیا کے راستوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس سے پہلے تعلیمی میدان بھی مار لیا ہے۔ وہ ناظم لاہور بھی رہے ہیں۔ تب ان کا ٹی وی چینل اور اخبار نہیں تھا۔ اس اقدام سے انہوں نے پوری صحافی برادری کی عزت بڑھائی ہے۔ میں مبارکباد دیتے ہوئے انہیں مجید نظامی کی معرکہ آرائی کا ایک واقعہ بتاتا ہوں۔ بڑے میاں صاحب میاں محمد شریف مجید نظامی کے پاس آئے تھے اور انہیں پاکستان کی صدارت کے لئے پیشکش کی اور بہت اصرار کیا۔ اس کے بعد نواز شریف اور شہباز شریف نے بھی زور لگایا مگر بہادر انسان آبروئے صحافت مجید نظامی نے کہا کہ میں نوائے وقت کا چیف ایڈیٹر ہوں۔ جس کرسی پر میں بیٹھا ہوں وہ میرے لئے صدر پاکستان کی کرسی سے زیادہ اہم اور بیش بہا ہے۔
عاصمہ جہانگیر کے لئے میرا خیال اچھا ہے میں نے کل بھی لکھا تھا کہ ان کا نام نواز شریف نے وزیراعظم کے لئے لیا تھا۔ اس پر بہت بحث شروع ہو گئی۔ عاصمہ نے وزارت عظمیٰ کے لئے کچھ نہیں کہا تھا مگر اپنی شخصیت اور ذات کا دفاع کیا۔ وہ بے نیاز عورت ہیں۔ اللہ نے انہیں ایک مقام دیا ہے۔ وہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر منتخب ہوئیں۔ وہ وکلاءکی حمایت سے قومی لیڈر کے طور پر سامنے آئیں۔ اب انہیں راجہ ریاض نے نگران وزیراعلیٰ کے طور پر تجویز کیا ہے۔ تو یہ ایک کمتر سیاسی حرکت ہے۔میں یہ کالم لکھ چکا تو عاصمہ جہانگیر کا فون آگیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ہائی کورٹ میں وکیل لیڈروں کو ساتھ بٹھا کے انکار کر دیا۔
راجہ ریاض اس کے بعد سیاست چھوڑ دیں مگر وہ کبھی نہ کر سکیں گے۔ ان کے خیال میں ”حکومت پر عزت بھی قربان ہے“ ان کے تینوں تجویز کئے گئے لوگوں نے ان کا منہ چڑھایا ہے۔ وہ خود اپنے آپ کو نگران وزیراعلیٰ کے لئے پیش کر دیں۔ میں نے سوچا تھا جسٹس زاہد حسین کا نام بھی راجہ ریاض نے اتحادیوں کے مشورے کے ساتھ پیش کیا تھا۔ راجہ صاحب کے لئے میرے دل میں ایک گنجائش پیدا ہوئی تھی مگر انہوں نے میرا خیال غلط ثابت کر دیا۔ اس کے لئے چودھری صاحبان اور ایس ایم ظفر کو راجہ صاحب سے احتجاج کرنا چاہئے۔ جسٹس صاحب کو راجہ ریاض نے تجویز کیا ہوتا تو میں کہتا کہ وہ بھی انکار کر دیں۔ راجہ ریاض ہمیشہ زکریا بٹ کے مشوروں پر چلتے ہوئے مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔
ایس ایم ظفر کے بیان سے پتہ چلا ہے جو نوائے وقت میں شائع ہوا ہے کہ جسٹس زاہد حسین کا نام چودھری شجاعت نے پیش کیا تھا۔ ایس ایم ظفر ایک محترم آدمی ہیں۔ انہوں نے سینیٹر بن کے بھی وزارت قبول نہ کی تھی۔ چودھری شجاعت کی یہ بات صحافیوں نے بہت انجوائے کی۔ جب نگران وزیراعظم کے لئے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس کے لئے میں خود سب سے زیادہ موزوں آدمی ہوں۔ اس خوش دلانہ جملے کے بعد اب بھی خیال ہے کہ پنجاب سے نگران وزیراعلیٰ کے لئے سب سے موزوں شخصیت جسٹس زاہد حسین ہیں۔ پنجاب حکومت اور اپوزیشن اس پر اتفاق کر لیں۔ دونوں کیلئے اچھا ہو گا۔

ای پیپر-دی نیشن