• news

یہودی ریاست کا ہمیشہ دفاع کرینگے‘ اوباما کا اسرائیل پہنچنے پر اعلان‘ فلسطینیوں کے احتجاجی مظاہرے

مقبوضہ بیت المقدس+ رملہ (اے ایف پی/ رائٹرز/ اے پی اے) امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ امریکہ ہمیشہ اسرائیل کا دفاع کرے گا۔ یہودی ریاست کے ساتھ ہمارا اتحاد دائمی ہے۔ یہ بات انہوں نے پہلے سرکاری دورے پر اسرائیل پہنچنے پر کہی۔ صدر اوباما نے کہاکہ امریکہ کو اسرائیل کا مضبوط ترین اتحادی اور عظیم ترین دوست ہونے پر فخر ہے۔ امریکہ کے اہم قومی سکیورٹی مفادات اسرائیل کے مضبوط دفاع سے وابستہ ہیں، امریکی صدر کا تل ابیب پہنچنے پر پرتپاک استقبال کیا گیا۔ صدر اوباما نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے معانقہ کیا۔ امریکی صدر نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں کشیدہ اور ابتر صورت حا ل کے باعث امریکہ کے قریبی اتحادی اسرائیل کوہمیشہ کی نسبت زیادہ مدد کی ضرورت ہے ،ہمیں درپیش خطرات کو ختم اور امن کو یقینی بنانا ہو گا، اسرائیل اور نواح میں پائیدار اور دیرپا قیام امن کے لئے تمام کوششیں بروئے کار لا ئیںگے، ہم نے اسرائیل کے گردونواح میں واقع ہمسائیوں سے امن معاملات کو کبھی نظر انداز نہیں کیا۔ صدر اوباما نے کہا کہ اسرائیل کی حمایت سے ہی امریکہ و اسرائیل کی سلامتی محفوظ ہو سکتی ہے اور دونوں ممالک مل کر ہی دنیا کو ایک بہترین اور پر امن بنا سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری سلامتی اس بات میں مضمر ہے کہ امریکہ اسرائیل ہمیشہ ساتھ ساتھ رہیں اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے 65سال قبل سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ اوباما اور اسرائیلی رہنماﺅں کے مذاکرات میں ایران کا ایٹمی پروگرام اہم موضوع ہو گا۔ قبل ازیں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے خصوصی وفد سے بھی ملاقات کی جس کے دوران دونوں نے خطے کو درپیش مسائل پر تبادلہ خیال کیا ،ایک اعلیٰ اسرائیلی عہدیدار کے مطابق گفتگو کے دوران فلسطن اسرائیل مذاکرات کی بحالی موضوع خاص رہا ۔نیو یارک میں اسرائیلی اخبار کے سینئر تجزیہ نگار چیمی سیلو نے ٹوئیٹر پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ا مریکی صدردورہ اسرائیل کے دوران ایرانی جوہری توانائی کے حصول کے خاتمے کےلئے فوجی آپریشن سمیت ہر ممکن اقدام اپنانے کو زیر بحث لائیں گے اوراس فیصلے کے لئے دونوں رہنما ستمبر یا اکتوبرکے ٹائم ٹیبل پر متفق ہو سکتے ہیں۔ اوباما کے دورے کے خلاف فلسطینیوں نے گذشتہ روز زبردست مظاہرے کئے۔ مغربی کنارے میں ہونے والے مظاہرے کے دوران مظا ہر ین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔ مغربی کنارے کے شہر رملہ میں ہونے والے مظاہرے کے سینکڑوں شرکا نے فلسطینی صدر محمود عباس کے دفتر کی جانب جانے کی کوشش کی جسے پولیس اہلکاروں نے ناکام بنادیا۔فلسطینی باشندوں کی اکثریت صدر اوباما کے دورے کے متعلق زیادہ پرامید اور پرجوش نہیں ہے جنہوں نے اپنی دوسری مدتِ صدارت کے آغاز کے بعد پہلے غیر ملکی دورے کے لئے کشیدگی کا شکار اس خطے کا انتخاب کیا ہے۔ صدر اوباما آ ج جمعرات کو وہ رملہ میں فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کریں گے۔ امریکی صدر کے دورے کے موقع پر مقبوضہ بیت المقدس اور رملہ دونوں شہروں میں سکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کئے گئے ہیں۔ اسرائیلی دارالحکومت میں پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کے پانچ ہزار سے زائد اہلکار تعینات ہیں۔ ایک فلسطینی عہدیدار کے مطابق امریکی صدر کے دورے کے موقع پر مغربی کنارے میں تین ہزار سے زائد فلسطینی پولیس اہلکار تعینات کئے جائیں گے۔ صدر اوباما اپنے دورے کے دوران کل جمعہ کو بیت اللحم میں واقعہ ”چرچ آف نیٹیویٹی“ بھی جائیں گے جو عیسائی روایات کے مطابق حضرت عیسیٰ کی جائے پیدائش ہے۔ بعدازاں وہ جمعہ کو ہی دورے کے اگلے مرحلے میں اردن روانہ ہو جائیں گے۔

ای پیپر-دی نیشن