فنکشنل لیگ حکومت سازی سے آﺅٹ
شہزاد چغتائی
پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے سندھ کے نگراں سیٹ اپ کو حتمی شکل دیدی جس کے مطابق جسٹس قربان علی علوی سندھ کے نگراں وزیراعلیٰ ہوں گے۔ 13رکنی کابینہ کے ناموں کی فہرست کی منظوری دیدی گئی ہے ۔ اگرچہ وزیراعلیٰ سندھ کی ایڈوائس پر سندھ اسمبلی تحلیل کردی گئی ہے لیکن پیپلز پارٹی اورایم کیو ایم کی مخالف سیاسی جماعتوں نے نگراں سیٹ اپ کو ویٹو کردیا ہے فنکشنل مسلم لیگ نے نہ صرف نگراں سیٹ اپ کو مسترد کردیا بلکہ اپوزیشن کی حکمت عملی طے کرنے کیلئے مسلم لیگ(ن) سے رابطے کرلئے اس ضمن میں فنکشنل مسلم لیگ نے پیپلز پارٹی کی مخالف 10سیاسی جماعتوں سے مشاورت شروع کردی ہے۔ فنکشنل مسلم لیگ نے اعلان کیا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور ا یم کیو ایم کی مرضی کا نگراں سیٹ اپ برداشت نہیں کیاجائے گا اورالیکشن پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی فنکشنل مسلم لیگ نے سندھ کے نگراں سیٹ اپ کو روکنے اورزیر غور ناموںمیں فنکشنل مسلم لیگ کو شامل نہ کرنے پرکیلئے کراچی سے اسلام آباد تک مزاحمت کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ گزشتہ ماہ پیرپگارا کی لاہور آمد پر مسلم لیگ(ن) کے صدر محمد نواز شریف نے اعلان کیا تھا کہ سندھ میں نگراں سیٹ اپ پرپیپلز پارٹی اورایم کیو ایم کی سودے بازی قبول نہیں کی جائے گی۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ سپریم کورٹ کو خود نوٹس لیناچاہیئے۔ مسلم لیگ(ن) نے بھی سندھ کے نگراں سیٹ اپ کو غیر منصفانہ قرار دیا ہے اور اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ نگراں سیٹ اپ میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ(ن) کو سندھ کے معاملات میں مداخلت سے گریز کا مشورہ دیا ہے ۔ جیالوں کے مطابق سندھ میں کامیابی کیلئے مسلم لیگ (ن) اوراس کی حامی سیاسی جماعتوں نے جو خواب دیکھے تھے وہ پیپلز پارٹی نے خاک میں ملا دیئے ہیں۔ جیالوں نے کہا مسلم لیگ (ن) اورسندھ میں اس کی اتحادی جماعتوں کے بعد سندھ میں اب کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔ دوہرا بلدیاتی نظام ختم ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کی مخالف سیاسی جماعتیں سیاسی طورپر دیوالیہ ہوگئی ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی جانب سے لیاری لاڑکانہ اور کراچی کے ساحلی علاقوں پر نقب لگانے کی سازش بھی ناکام ہوگئی ہے۔ دوسری جانب نگراں وزیراعظم کے نام دیتے وقت اپوزیشن نے ہلکا پھلکا سندھ کارڈ کھیلنے کی کوششیں کرکے پیپلزپارٹی کوپریشان کر دیا۔ لیکن مسلم لیگ(ن) نے مجموعی طور پر دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کارڈ پر انحصار کیا۔ مسلم لیگ (ن) کی فراخ دلی پرسیاسی حلقوں کو اس وقت حیرت ہوئی جب نگراں وزیر اعظم کیلئے پیش کیے جانے والے 80فیصد ناموں کا تعلق سندھ سے تھا۔ ابتدائی طورپر حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے جو6نام سامنے آئے ان میں سے پانچ کا تعلق سندھ سے تھا۔ مسلم لیگ(ن) کی جانب سے بزرگ قوم پرست رہنما رسول بخش پلیجو کا نام دیئے جانے پر ایک جانب پیپلز پارٹی کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے تو دوسری جانب پیپلز پارٹی کے انتہا پسندوں کے پاﺅں تلے زمین نکل گئی۔ رسول بخش پلیجو کا نام شامل کرکے اپوزیشن اورمسلم لیگ (ن) نے سندھ میں پیش رفت کی اورصوبے میں رسول بخش پلیجو کے نام کو بہت پذیرائی ملی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے رسول بخش پلیجو کو نگراں وزیراعظم بنانے کی کھل کر مخالفت کی اورکہا کہ رسول بخش پلیجو پیپلز پارٹی کے خلاف سندھ میں قائم ہونے والے اتحاد کا حصہ ہیں لہذا انہیں نگراں وزیراعظم کیسے بنایاجاسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی نے جسٹس ناصر اسلم زاہد کا نام یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ان کے بہنوئی جسٹس نظام کے قتل کا الزام صدر آصف علی زرداری پر ہے۔ اس تناظر میں وہ کیسے انصاف کرسکتے ہیں جسٹس ناصرا سلم زاہد صدر آصف علی زرداری کو جیل بھی بھجواچکے ہیں۔
سندھ کے نگراں وزیراعلیٰ کیلئے قربان علی علوی کا نام صوبائی وزیر ایاز سومرو نے اچانک تجویز کیا اس سے قبل دیدار حسین شاہ پیپلز پارٹی کے فیورٹ امیدوار تھے۔ پیپلز پارٹی نے نگراں وزیراعلیٰ کیلئے صدر کو چار نام پیش کیے۔ لیکن صدر نے جسٹس(ر) حامد علی مرزا اوردیدار حسین شاہ کے ناموں کی منظوری دی پھراچانک جسٹس قربان علوی میدان میں آگئے۔ ان کا تعلق بوہرہ فرقے سے ہے۔ متحدہ موومنٹ کی جانب سے سندھ کے نگراں وزیراعلیٰ کیلئے جو نام پیش کئے گئے۔ ان میں جسٹس ناصر اسلم زاہد کا نام بھی شامل تھا۔ اس طرح جسٹس ناصر اسلم زاہد کا نام سیاسی جماعتوں نے بیک وقت نگراں وزیراعظم اورنگراں وزیراعلیٰ کے لئے پیش کیا۔جس کے ساتھ ان کی مقبولیت کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے ۔نگراں وزیراعلیٰ کیلئے ایم کیو ایم نے جو نام پیش کیے ان میں جسٹس ڈاکٹرغوث محمد جسٹس (ر) محمود عالم رضوی جسٹس (ر) منیب الرحمن اوربیرسٹر حبیب الرحمن شامل ہیں۔ ایم کیو ایم کے تمام امیدواروں کا تعلق عدلیہ سے ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے دو امیدوار ہم خیال کے ایک امیدوار کا تعلق بھی عدلیہ سے ہے اس طرح عدلیہ کے 8افراد سندھ کے نگراں وزیراعلیٰ کی ریس میں شامل ہوئے۔ نگراں وزیراعظم کے لئے سب سے پہلے اقوام متحدہ کے مستقل مندوب عبداللہ حسین کا نام سامنے آیا تھا گزشتہ دنوں 20ممالک کے سفیروں نے کراچی آکر عبداللہ حسین ہارون سے ملاقات کی تھی تو سیاسی حلقوں کو یقین ہوگیا تھا کہ وہ نگراں وزیراعظم ہوں گے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے نگران وزیر اعظم کیلئے ان کے نام کو اہمیت نہیں دی گئی لیکن فنکشنل مسلم لیگ اب بھی عبداللہ حسین ہارون،سابق چیف سیکریٹری اسلم سنجرانی اور خیرمحمد جونیجو کو نگراں وزیراعلیٰ بنانے کی سفارش کر رہی ہے ۔ اس صورت حال میں ایم کیو ایم ایک بار پھر تنہا دکھائی دے رہی ہے اور اس کے پاس پیپلز پارٹی کے امیدوار کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا ۔ایم کیو ایم نے نگراں وزیراعلیٰ کی نامزدگی کیلئے پانچ نام ضرور پیش کیے اوراردو بولنے والے کو نگراں وزیراعلیٰ بنانے پر زور دیا لیکن سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہونے وا لے معاہدے کے تحت نگراں وزیراعلیٰ کا عہدہ ایم کیو ایم کو نہیں دیاجاسکتا تھا کیونکہ اس معاہدے کے تحت طے ہوا تھا کہ گورنر اردو بولنے والا اور وزیراعلیٰ سندھی بولنے والے کو بنایاجائے گا اس لحاظ سے گورنر سندھ عشرت العباد کی موجودگی میں کسی اردو بولنے والا کو وزیراعلیٰ نامزد نہیں کیاجاسکتا تھا۔قوم پرستوں اور10جماعتی اتحاد نے بھی اردو بولنے والے کو وزیراعلیٰ بنانے کی صورت میں کھلی جنگ کی دھمکی دیدی تھی ۔ لہٰذاپیپلز پارٹی کو اس معاملے کی نزاکت کا احساس تھا کہ ایم کیو ایم کے امیدوار کو نگراں وزیراعلیٰ بنادیا تو دوہرے بلدیاتی نظام جیسی صورتحال پیدا ہوجائے گی۔
عام انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی کو کئی دھچکے لگے ہیں۔ جس روز پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور اقتدار کا خاتمہ ہوا سابق وزیرمملکت نبیل گبول نے متحدہ قومی موومنٹ میں شمولیت اختیار کر لی اور اسی رات پیپلزپارٹی امن کمیٹی کے مخالف گروپ کا سرغنہ ارشد پپو بھائی یاسر عرفات سمیت لیاری میں عوام کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس رات کراچی میں ہرجانب جشن کی کیفیت تھی ایک جانب مسلم لیگ(ن) کی جانب سے کیماڑی سبزی منڈی اوردیگرمقامات پر مسلم لیگ کی جانب سے یوم نجات منایا گیا۔ دوسری جانب لیاری کی سڑکوں پر جشن تھا ارشد پپو اوراس کے بھائی کی نعش کو گھسیٹا جارہا تھا اورمقتولین کے سروں کو گدھوں پر رکھ کر گلی کوچوں میں عوام کو دکھایا جا رہا تھا ہزاروں افراد سڑکوں پر تھے اور ارشد پپو اوریاسر عرفات سے نفرت کا اظہار کیاجاتا رہا ۔ صبح فجر کے وقت جب تماشا ختم ہوا۔ تو بابا لاڈلہ اوراس کے ساتھیوں نے ارشد پپو اور یاسرعرفات کے سروں سے فٹبال کھیلی۔ ارشد پپو اوریاسر عرفات سمیت پانح افراد کو ڈیفنس سوسائٹی کے فلیٹ سے اغوا کرکے لیاری لایا گیاتھا ارشد پپو اوریاسر عرفات کو 80موٹر سائیکلوں پر سوارافراد لیاری لائے تھے جہاں چیل والی کوٹھی پر ان کی آنکھوں سے پٹیاں اتاری گئیں اور لاﺅڈ اسپیکر پر اعلان کیا گیا لیاری کے عوام کے قاتلوں کو پکڑ لیا گیا ہے اس لئے وہ ان سے انتقام لے سکتے ہیں۔ اس اعلان کے ساتھ موت کارقص شروع ہوگیا۔ ارشد پپو پرلیاری امن کمیٹی کے سربراہ عذیربلوچ کے باپ کو قتل کرنے کاالزام بھی تھا اوراس کے خلاف 100مقدمات قائم تھے ارشد پپو پربلوچستان لبریشن آرمی کے ساتھ مل کر نیٹ ورک چلانے کا بھی الزام تھا۔ جس وقت ارشد پپو کو لیاری لایا گیا پولیس باخبر ہوچکی تھی۔ لیکن پولیس تھانوں سے باہر نہیں نکلی بعض حلقوں کا خیال ہے کہ لیاری سے رینجرز کے دو افسران کے قتل میں ارشد پپو گروپ ملوث ہوسکتا ہے جس کی پاداش میں اس کو عبرت کا نشانہ بنایاگیا ۔ کراچی میں یہ افواہیں بھی اڑ رہی ہیں کہ لیاری امن کمیٹی کے رہنما پیپلز پارٹی سے ناراض تھے اوروہ آئندہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی حمایت سے گریزاں تھے اس لئے پیپلز پارٹی کی حکومت نے لیاری امن کمیٹی کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے ارشد پپو یاسرعرفات اورشیراپٹھان کو گرفتارکراکے امن کمیٹی کے حوالے کردیا جس کے ساتھ پیپلز امن کمیٹی اورپیپلزپارٹی کے درمیان فاصلے ختم ہوگئے اورپورے لیاری پربلاشرکت غیرے امن کمیٹی کا کنٹرول قائم ہوگیا۔ اس کے ساتھ پیپلز امن کمیٹی کی جانب سے سیاسی وفاداریاں بدلنے اوربغاوت کے امکانات ختم ہوگئے۔ قبل ازیں لیاری امن کمیٹی کے رہنماﺅں کے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جو رابطے تھے اس کے خدشات بھی دم توڑ گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اب تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ وزیرمملکت نبیل گبول کی ایم کیو ایم میں شمولیت اورمرحوم صوبائی وزیر رفیق انجینئر کے انتقال کے بعد کس کو ٹکٹ دیاجائے۔ اب تک جو امیدوار سامنے آئے ہیں اور ان میں صدر کے دودھ شریک بھائی اویس مظفر ٹپی صدر کی ہمشیرہ فریال تالپور کا نام بھی شامل ہے پیپلز پارٹی ابھی نبیل گبول سے خوفزدہ دکھائی دیتی ہے۔ لیاری کے ایک سینئر صحافی لطیف بلوچ کا کہنا ہے کہ نبیل گبول کے ساتھ مل کر ایم کیو ایم لیاری میں پیپلز پارٹی کیلئے مشکلات کھڑی کرسکتی ہے لیاری کی آبادی کا ایک بڑا حصہ نبیل گبول کے ساتھ ہے ان کے 10ہزار ووٹ پکے ہیں۔ چنانچہ لیاری میں امن تو قائم ہوگیا ہے لیکن کراچی بدستور خون میں نہایا ہوا ہے۔