پی پی پی کو صنعتی کارکنوں کے مرکز میں چیلنج کا سامنا
حمد کمال نظامی
قومی اسمبلی کے تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ اس وقت اصولی طور پر کوئی اپوزیشن اور حکومتی پارٹی نہیں ہے۔ دونوں بڑی پارٹیوں سمیت انتخابی سیاست میں ایک ہلچل مچی ہوئی ہے۔ تمام سیاسی پارٹیوں خصوصی طور پر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے حوالے سے یہ سوچ تقویت پکڑ رہی ہے ہیں کہ کیا انتخابات شفاف ہوں گے اور کیا الیکشن کے نتیجہ میں آنے والی حکومت قوم کی توقعات پر پورا اترے گی؟ پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد اصولی طور پر نگران وزیراعظم کا فیصلہ قائد حزب اختلاف اور قائد ایوان میں ایک ہی دن میں ہو جانا چاہیے تھا لیکن دونوں کے مفادات دیوار بنے ہوئے ہیں۔ نگران حکومت کے قیام کے بعد ہی اصل انتخابی جنگ کا آغاز ہو گا اور بقول فیض لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے جو لوح ازل پر لکھا ہے۔ پاکستان کی 65سالہ تاریخ کے تلخ تجربات کی روشنی میں کہہ سکتے ہیں کہ حالیہ انتخابات کو سابق تمام انتخابات سے جداگانہ ماحول اور حالات میں ہو رہے ہیں۔فیصل آباد صنعتی کارکنوں کا شہر ہے ۔عوام نے اپنے ملک کے مستقبل کو مقدم قرار نہ دیا تو انقلاب برپا کرنے کی تمام باتیں پانی کا بلبلہ ثابت ہوں گی۔ پاکستان کی 65سالہ تاریخ میں کبھی ایسی عبوری حکومت نہ آئی ہوگی ہم سب کے لئے لازم ہو گا کہ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کریںاس وقت درجنوں فیصلے ہیں جن پر ماضی کی حکومت نے عمل نہیں کیا اگر عبوری حکومت عدالتوں کے فیصلہ پر عملدرآمد کراتی ہے تو یاد رکھیں سابق حکمران انہیں انتقامی کارروائی قرار دیتے ہوئے عوام کے ذہنوں میں عدلیہ کے خلاف زہر بھرنے کی بھرپور کوشش کریں۔
پیپلزپارٹی نے اپنا جو نیا انتخابی منشور پیش کیا ہے وہ بھی اسی آرٹ کے تابع ہے کیونکہ نئے منشور میں روٹی کپڑا اور مکان کے مقابلہ میں جو تین نئے سلوگن دیئے ہیں وہ اپنی جگہ لیکن پارٹی کے نئے منشور میں کرپشن کے خلاف ایک لفظ بھی درج نہیں اور اس نے یہی پیغام دیا ہے ۔اس کا اہم مقصد اپنے امیدواروں کی کامیابی ہے ۔ اگر کوئی تبدیلی نہیں آتی تو اس کا نتیجہ بڑا ہی دردناک ہو گا۔ فیصل آباد میں انتخابی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں بظاہر تو مسلم لیگ(ن) ہی منظر پر چھائی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور مسلم لیگ(ن) کا پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کے مقابلہ میں گراف بھی اونچا ہے لیکن ایک تیسری سیاسی قوت تحریک انصاف کے نام پر ابھر کر سامنے ضرور آئی ہے۔ پیپلزپارٹی اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ تحریک انصاف صرف مسلم لیگ(ن) کے ووٹ تقسیم کرے گی جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے تحریک انصاف دونوں کے ووٹ تقسیم کرے گی اگر فیصل آباد کے حوالہ سے بات کریں تو تحریک انصاف، پیپلزپارٹی کے ووٹ بینک کو زیادہ متاثر کرے گی۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے ذوالفقار علی بھٹو کو کیش کرایا اور صدر زرداری نے گذشتہ انتخابات میں محترمہ بینظیر بھٹو کو کیش کرا کر پانچ سال جو بازار لوٹ قائم کیا اس بازار کی رونق آدھی بھی نہیں رہے گی بلکہ انتخابی شیڈول آنے پر بہت سے نبیل گبول اور جمشید دستی سامنے آئیں گے اور انتخابات میں اب شخصیت نہیں کرنسی کام کرے گی اور پیپلزپارٹی بقول پیرصاحب پگاڑا بوریوں کا منہ پنجاب کی بجائے سندھ میں کھولے گی کیونکہ پنجاب سے پیپلزپارٹی مایوس ہے اور منظور وٹو کو اپنی پڑی رہے گی ہاں ایک بات اور کہ اگر سابق وفاقی وزیرداخلہ اور مسلم لیگی میاں زاہد سرفراز نے اپنے اعلان کے مطابق قومی اسمبلی کے انتخابی میدان میں قدم رکھا باوجود اس بات کہ ان کا تعلق سابق صدر پرویزمشرف کی پارٹی سے ہے اور اس پارٹی میں ان کی شمولیت کوئی نظریاتی نہیں بلکہ میاں برادران کی مرہون منت ہے جیسے کہ چوہدری برادران کو صدر زرداری کے پلڑے میں ڈالنے کے لئے میاں برادران نے اپنی انانیت کا مظاہرہ کیا۔میاں زاہد سرفراز اگر انتخابی میدان میں اترتے ہیں تو بلاشبہ ان کے مقابلے کا کوئی سیاست دان مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی میں نہیں ہے اور وہ اپنے ذاتی ووٹ بینک کے ساتھ میدان میں اتریں گے اور پیپلزپارٹی کا وہ ووٹ بینک جو اپنی قیادت کی کرپشن اورنااہلی کی بناءپر ناراض ہے وہ انتقامی طور پر میاں زاہد سرفراز کے پلڑے میں چلا جائے گا اور اس کا سراسر نقصان مسلم لیگ(ن) کو برداشت کرنا پڑے گا کہیں زندہ ہاتھی لاکھ کا اور مرا ہاتھی سوا لاکھ والا معاملہ درپیش نہ ہو جائے۔ اس کے باوجود مسلم لیگ(ن) فیصل آباد میں ونر پارٹی کے طور پر اپنا ریکارڈ قائم رکھے گی حالانکہ فیصل آباد میں مسلم لیگ(ن) دو گروپوں اور گروہوں میں تقسیم ہے لیکن اس کی تقسیم کراچی میں نوگوایریا جیسی ہے یعنی دونوں دھڑوں کے اپنے اپنے ایریاز ہیں اور آخری بات کہ انتخابات گو ناگزیر ہیں اور تبدیلی انتخابات کے بطن سے ہی جنم لیتی ہے لیکن ہمیں کسی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آتے۔