• news

حکومت اور اپوزیشن کا کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی

سلیم پروانہ
مقبوضہ کشمیر میں گرفتاریوں‘ تشدد اور آئے روز ہلاکتوں کے واقعات کے خلاف احتجاج دونوں جانب کے عوام مسلسل کررہے ہیں۔ اقوام عالم کو اس ساری صورتحال سے آگاہ کرنے کے لیے حکومت آزادکشمیر اور آزاد جموں و کشمیر کونسل نے قانون ساز اسمبلی کا مشترکہ اجلاس طلب کیا۔ اجلاس کی صدارت سپیکر سردار غلام صادق خان نے کی، آزادکشمیر کی حکمران اور پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن جماعتوں نے اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کشمیریوں کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی آزادکشمیر کے وزراءکرام مطلوب انقلابی، سید اظہر گیلانی، پاکستان مسلم لیگ نواز آزادکشمیر کے صدر و قائد حزب اختلاف راجہ فاروق حیدر خان، آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس سے تعلق رکھنے والے ممبران اسمبلی سردار سیاب خالد، ملک محمد نواز، سردار امیر اکبر خان، محترمہ سید النساءکی جانب سے پیش کردہ قراردادوں کو یکجا کرتے ایوان کی کارروائی کو آگے بڑھایا۔ قائد حزب اختلاف راجہ فاروق حیدر خان نے تجویز دی کہ حکومت پاکستان مسئلہ کشمیر پر جارحانہ خارجہ پالیسی مرتب کرے جس میں پاکستان کے مفادات کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے کہا کہ ہم مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ ہیں، دنیا کو مسئلہ کشمیر حل کرنا ہوگا۔ انہوں نے کشمیریوں کی حمایت پر حکومت پاکستان، صدر آصف زرداری اور تمام جمہوری و ریاستی قوتوں کا شکریہ ادا کیا اور اعلان کیا کہ دنیا میں مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے ارکان پر مشتمل وفود تشکیل دیئے جائیں جو پاکستان کی سیاسی و دینی قائدین سے ملاقات کرکے انہیں مسئلہ کشمیر اجاگر کرےں۔ وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف سمیت دیگر ممبران نے قومی اسمبلی میں مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے پیش کردہ قرارداد منظور کرکے قومی جذبات کی عکاسی کی ہے۔ آزادکشمیر اسمبلی و کونسل کے مشترکہ اجلاس میں افضل گورو کی شہادت کو عدالتی قتل قرار دیا گیا۔ مدثر کامران کے قتل، یاسین ملک کی گرفتاری اور بھارتی مظالم کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔ اجلاس میں عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں پائیدار قیام امن کے لیے مسئلہ کشمیر حل کرائے۔ افضل گورو کا جسد خاکی ورثاءکے حوالے کیا جائے۔ مشترکہ اجلاس میں افضل گورو کے ساتھ شہید مقبول بٹ کی قربانی کا ذکر کرکے انہیں خراج عقیدت بھی پیش کیا گیا۔ قراردادوں کی اتفاق رائے سے منظوری کے بعد مقبوضہ کشمیر کے عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے پارلیمنٹ کے ارکان، حریت کانفرنس آزادکشمیر شاخ کے قائدین، سیاسی جماعتوں کے اکابرین نے اسمبلی کے ورجنگ ہال سے ایک ریلی بھی نکالی۔ یقینا ان اقدامات کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومت آزادکشمیر نے مشترکہ اجلاس کے لیے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر پر قراردادوں کیلئے سب کا اتفاق حاصل کیا تھا۔
صدر زرداری اور مرکزی حکومت کی خدمات کے حوالے سے ایجنڈے میں شامل کرائی گئی قراردادوںپر اپوزیشن کے اعتراض کے باعث انہیں وقفہ کے بعد ایوان میں دوبارہ پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا، دو روز کے وقفہ کے بعد مشترکہ اجلاس جب دوبارہ شروع ہوا تو حکومت کو اس کورم پورا کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلم کانفرنس کے 2ممبران کی اجلاس میں شرکت کے باعث کورم کے مسئلہ پر اٹھایا گیا قانونی اعتراض دور ہو گیا حالانکہ حکومت کے لیے یہ نازک مرحلہ تھا۔ مسلم کانفرنس کے ان 2ارکان کی شرکت نے آزادکشمیر حکومت کو سیاسی آکسیجن فراہم کی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی کونسل نے ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔ حکومت کی طرف سے پیش کردہ قراردادوں جن کو مشترکہ ایوان کے 55 میں سے 21 حاضر ممبران نے منظور کیا اس میں حکومت پاکستان کے گوادر پورٹ، پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدے کو تاریخی قرار دیا گیا۔ دوسری جانب مسلم لیگ نواز کے ممبران اسمبلی ڈاکٹر نجیب نقی، بیرسٹر افتخار گیلانی، شوکت شاہ اور چوہدری محمد اسماعیل نے اپنا مو¿قف پیش کرتے ہوئے بتایا کہ مسلم لیگ ایسی تعریفی قراردادوں کے اجلاس میں کیوں شرکت کرے؟ پیپلزپارٹی کی حکومت نے غریبوں سے روٹی کا آخری نوالہ بھی چھین لیا ہے۔ پیپلزپارٹی میں اختلافات اور دھڑے بندی میں پارلیمان پارٹی کے علاوہ کارکن بھی ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں۔ پاکستان میں نگران حکومت کے قیام کے بعد آزادکشمیر حکومت کو کسی نوعیت کے انتظامی و سیاسی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے اس پر رائے زنی قبل از وقت ہوگی۔ سیاسی تقرریوں کا نوٹس لیکر اخراجات کم کرنے کے لیے ان کی تعداد میں کمی کا مشورہ دیا جا سکتا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن