آو انقلاب کو دستک دیں۔۔۔!
آ¶ انقلاب کو دستک دیں! ذرا دستک تو دیں!!! وہ انقلاب جس کی آہٹ سنائی نہیں دیتی، عوام کی آواز میں انقلاب، انقلاب ضرور سنائی دیتا ہے مگر کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ انقلاب کیا ہے؟ اس کے معنی، مفہوم ہر طبقہ اپنے مخصوص مفادات کو مدنظر اور پیش نظر رکھ کر بیان کرتا ہے لیکن آخر انقلاب ہے کیا؟ انقلاب، انقلاب اور انقلاب کی گذشتہ کئی عشروں سے سنی جانے والی گونج اور بازگشت نے انقلاب کو ہمارے ہاں اس فیشن کا درجہ دے دیا ہے جو این جی اوز کی ماسیاں اور دیگر سماجی، فلاحی تنظیموں کے ذمہ داران نمبرسکورنگ اور غیرملکی و ملکی امداد حاصل کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی طرف سے ہر یوم کے حوالے سے مخصوص کئے جانے والے ایام پر روایتی اور گھسی پٹی تقاریر کر کے اپنے فیشن کے طور پر زندہ کرتے ہیں۔ اکثر تو اب صرف اخبارات اور میڈیا کے ذریعے اپنے اس فیشن کو تابندہ کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں ۔شاید ہمارے ہاں یہی انقلاب ہے کہ جو شخص یا تنظیم یا پھر جماعت مشہور ہو کر عوامی سطح پر معروف ہو جائے اور پھر تنظیمی اور اداروں کی بنیادوں سے ہٹ کر شخصی بنیادوں پر شخصیات کو مشہور اور مضبوط کیا جانے لگے تو انقلاب کے معنی بڑے مبہم ہونے لگتے ہیں۔ انقلاب ہمارے ہاں ایک ایسا دیرینہ خواب ہے جو شاید کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے۔ ایک روز نجی ٹی وی چینل پر عوامی سروے کے دوران ایک معمر شخص بتا رہے تھے کہ ان کی عمر 90برس کے قریب ہے اور جب وہ نودس سال کے تھے تو اپنے پردادا سے سنا کرتے تھے کہ ان کے پردادا بھی اپنے دور میں سنتے تھے کہ انقلاب آنے والا ہے اور اس شخص کے پردادا بڑے وثوق کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ چونکہ پاکستان کا قیام عمل میں آ چکا ہے اور عوام یحییٰ خان، ایوب خان کی فوجی آمریت کی تلخیوں کو برداشت کر چکے ہیں لہٰذا انقلاب آ کر ہی رہے گا۔
ہمارے عظیم ملک میں انقلاب 14اگست 1947ءکو قیام پاکستان کی صورت میں آیا تھا جب دس لاکھ سے زائد ما¶ں، بہنوں بیٹیوں، بیٹوں اور بزرگوں نے اپنی زندگیوں تک کی قربانی دی اور اس ملک کی سرحدوں کی دائمی مجاہد بن گئے۔ قیام پاکستان سے پہلے قائداعظم محمد علی جناح اور حضرت علامہ اقبال کی قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں کی صفوں میں انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد 1965ءکی جنگ میں قوم کے ولولہ اور جذبہ جہاد میں انقلاب کے معنی ایک مرتبہ پھر اس سنہری اور دبنگ انداز میں واضح کئے کہ انقلاب کی راہیں کھلتی نظر آنے لگیں مگر پھر کیا تھا! 1965ءکی جنگ کا دور دورہ ختم ہوا اور پھر عوام اسی عوام میں تبدیل ہو گئی جو صرف اور صرف محض اپنے دل کی تسلی کے لئے انقلاب کا نام استعمال کرتی ہے۔ ہماری جستجو ہے کہ آج اس انقلاب کو دستک دیں وہ انقلاب جو اس دکھی ماں کے لئے انقلاب ثابت ہو جس کا خاوند اور جوان لخت جگر دہشت گردی کی کارروائی میں شہید ہو چکا ہے۔ اس انقلاب کو دستک دیں جو عوام کی زندگیاں بدل سکے۔ اس انقلاب کو دستک دی جائے جو اس دکھیاری بیوہ کی زندگی میں خوشیاں لا سکے جس کا خاوند، جس کا بیٹا، جس کی بیٹی یا جس کا کوئی بھی اپنا پیارا ٹارگٹ کلنگ میں زندگی کی بازی ہار چکا ہو۔ اس انقلاب کے دروازے پر دستک دی جائے اور پھر اس انقلاب کے دروازے پر دستک دے کر اس دروازے پر لگے بے رحم تالے کی چابی تلاش کی جائے جو اس بے بس لاچار اور بے حس ہو جانے والی قوم کو بیدار کرے اور انہیں احساس دلائے کہ چند مٹھی بھر حکمران سیاستدان ان کے وسائل پر قابض ہیں ان سے دو وقت کی روٹی کھانے کا حق چھین رہے ہیں آج اس انقلاب کے درودیوار کو ہلائیں کہ جو ان لوگوں کو جینے کا حق دے سکے اور انہیں یاد کروائے کہ وہ انسان ہیں اور ان کے لئے بھی پینے کے صاف پانی کا حصول اسی طرح ضروری ہے جس طرح وزیروں بیوروکریٹس اور اعلیٰ صنعت کاروں کے گھروں میں پالتو جانور خالص دودھ پیتے ہیں ان کے گھوڑے مربہ کھاتے ہیں اور ان کے پالتو جانوروں کے لئے بیرون ممالک سے قیمتی اور خالص اشیاءخوراک کے طور پر برآمد کروائی جاتی ہیں۔
آج اس انقلاب کو دستک دینے کی ضرورت ہے جومعاشرے میں کسی بھی پڑھے لکھے نوجوان کو بندوق اٹھانے پر مجبور نہ کرے۔ آج وہ انقلاب ضروری ہے جو گھریلو تنگ دستی اور غربت بیروزگاری سے تنگ آئے باسیان وطن کو خودکشیاں کرنے پر مجبور نہ کریں۔ آج اس انقلاب کے دروازے پر دستک دینے کی ضرورت ہے جس کی گونج علمائے کرام کو مجبور کر دے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور ایک قرآن ایک رسول ہونے کے باوجود قوم کو تفرقے میں ڈال کے مایوسی کے ان اندھیروں میں نہ دھکیلیں جس کی راہیں کفر کی طرف بڑھتی ہیں۔ آج اس انقلاب کے درودیوار کو ہلا کر انقلاب کے خزانے سے ان قرینوں کو تراشنے اور برآمد کرنے کی ضرورت ہے جہاں ایک ریڑھی بان سے لے کر بڑے سے بڑا تاجر اور بڑے سے بڑا صنعت کار بجلی چوری نہ کرے، ملاوٹ نہ کرے اور عوام کو نہ لوٹے۔ آج اس انقلاب کے دروازے پر پوری اٹھارہ کروڑ عوام کو دستک دینے کی ضرورت ہے کہ بڑے سرمایہ دار پہلے مزدوروں کو معمولی سی تنخواہیں دیں اور پھر اپنی ہی مصنوعات کو مارکیٹ میں فروخت کرکے ان کو دی گئی تنخواہیں دوبارہ اپنی تجوریوں میں نہ بھر لیں۔ آج اس انقلاب کے درودیوار کو گرا کر انقلاب کو اٹھارہ کروڑ عوام کی صفوں میں براجمان کرنے کی ضرورت ہے جو چند بڑی پارٹیوں کے تکبر میں مبتلا لیڈروں کی تکون کو توڑ سکیں۔ آج وہ انقلاب ضروری ہے جو عوام کو روٹی، کپڑا، مکان اور آزاد فضا¶ں میں سانسیں لینے کی سہولیات میسر کر سکے۔ آج اس انقلاب کے دروازے پر دستک دینے کی ضرورت ہے جہاں سے عوام بجلی، گیس، پٹرول، اناج اور ہر طرح کی بنیادی ضروریات زندگی ان ارزاں نرخوں پر حاصل کر سکے جو ان کی قوت خرید میں اس انداز میں آ سکے کہ وہ اپنے ماہانہ اخراجات پورے کر کے بھی اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے بچت کو یقینی بنا سکیں۔ آج انقلاب کو قیدی بنانے والے ان وڈیروں، جاگیرداروں، سیاستدانوں، سیاسی جماعتوں کے قائدین بڑے بڑے تاجروں، زمینداروں اور صنعت کاروں کی تعمیر کردہ بلندوبالا قلعہ نما دیواروں کو گرانے کی ضرورت ہے جہاں سے عوام اپنے لئے امن عامہ صحت کی سہولیات بنیادی اشیاءخوردونوش اور انسانوں کی سی زندگی گزارنے کے لئے ہر طرح کی سہولیات باآسانی حاصل کر سکیں۔ آج انقلاب کو انقلاب بنانے کا وقت ہے بڑے بڑے تجزیہ کار اور سیاست دان اس وقت کہنے پر مجبور ہیں کہ 1970ءکے انتخابات میں جس بڑی تعداد میں عوام کی طرف سے اپنے ووٹ کی طاقت کا استعمال کیا گیا تھا آج آمدہ انتخابات میں یہی تاریخ اپنے آپ کو دہرانے والی ہے تو کیا غربت، بیروزگاری، ننگ، افلاس، لاقانونیت، دہشت گردی اور طرح طرح کے مسائل میں گھری ہوئی قوم کا فرض نہیں بنتا کہ وہ ووٹ کی طاقت سے انقلاب کو دستک دیں۔ آ¶ انقلاب کو دستک دیں، ذرا دستک تو دیں!!!