نگران وزیراعظم کی دوڑ اور سٹے بازی کا نچوڑ
ایک شاعر نے لفظی کیمرے سے ہماری سیاست کی تصویر اس طرح کھینچی تھی کہ ....
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
ہمارے تماش بین سیاستدانوں نے سیاست کو واقعی ایک طوائف بنا کر رکھ دیا ہے۔ بیچاری سیاست کے ساتھ ابھی ایک تماشا ختم نہیں ہو پاتا کہ ایک نیا تماشا شروع کر دیا جاتا ہے۔ جناب زرداری کے دورِ حکومت میں سیاست کو ایک ایسا حیرت انگیز مفاہمتی ناچ نچایا گیا کہ عوام اسے انگشت بدنداں دیکھتے رہ گئے اور اس ہوشربا رقص کے نظاروں میں بدحال پانچ سال بیت جانے کا پتہ تک نہیں چلا۔ اب آئین حکومتی تماشا گری کا پردہ گرا رہا ہے تو عوامی دل لگی کے لئے مختصر دورانئے کا ایک نیا تماشا لگا دیا گیا ہے۔ اس تماشے کو ہم نگران تماشا کہہ سکتے ہیں۔
نگران حکومتی تماشا چند آئینی ضوابط کا پابند ہے اور حزب اقتدار کے ساتھ حزب اختلاف کو بھی کچھ کرتب دکھانے کی اجازت دیتا ہے۔ ان دونوں تماشاگروں کے کرتبوں میں تال میل پیدا نہ ہو سکے تو دونوں کے نامزد ارکان پر مشتمل کمیٹی رقصِ جمہوریت میں رِدھم پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ کمیٹی بھی اپنی تماشا گری میں ناکام ہو جائے تو الیکشن کمشن کا ”رِنگ ماسٹر“ تماشاگاہمیں اترتا ہے اور آئینی آرٹیکل 224 اے کی مضبوط رسی پر فیصلہ کن کرتب دکھاتا ہے۔ نگران تماشے کا عوامی منظر نامہ کچھ یوں ہے کہ وزیراعظم نے نگران وزیراعظم کا نام تجویز کرنے کے لئے مکتوب لکھا جس پر حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے بقول شخصے باہمی مشاورت سے نگران وزیراعظم کے لئے جسٹس (ر) شاکراللہ جان، جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد اور رسول بخش پلیجو کے نام تجویز کئے۔ جوابی طور پر حکومتی جماعتوں نے عبدالحفیظ شیخ، عشرت حسین اور ہزار خان کھوسو کے نام پیش کر دئیے۔ حکومت اور حزب اختلاف میں ایک نام پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ یہی وہ موڑ تھا جہاں سے نگران تماشا ایک گرما گرم ڈرامائی مرحلے میں داخل ہو گیا۔ اس ڈرامے کے ایک اور کردار ایم کیو ایم نے حسب معمول ”یہاں بھی وہاں بھی“ والا کردار ادا کرتے ہوئے اعلان کیا کہ نگران وزیراعظم ناصر اسلم اور عشرت حسین میں سے ایک ہونا چاہئے۔ تحریک انصاف نے بھی اس تجویز کی حمایت کی لیکن انتخابی ابہام کو کم کرنے کے لئے ناصر اسلم کو پہلی ترجیح قرار دیا۔ نگران وزیراعظم کی دوڑ میں مقابلہ ابہامی نوعیت کا ہو تو کیسے ممکن ہے کہ سٹہ باز الٹ بازیاں لگاتے ہوئے میدان میں نہ اتریں اور اپنی ”شرطیہ“ تماشا گری کا مظاہرہ نہ کریں۔
شیخ حفیظ نے اسمبلی تحلیل ہونے سے صرف دو ہفتے قبل وزارت خزانہ سے اچانک استعفیٰ دے دیا اور پارلیمنٹ کی رکنیت بھی چھوڑ دی۔ اس پراسرار فراغت پر ایوانِ صدر کے حکمت شناسوں نے اظہار افسوس کے بجائے انہیں مبارکبادیں پیش کیں اور انتخابی نجومیوں نے ان کے نگران وزیراعظم بننے کی پیش گوئیاں شروع کر دیں۔ کچھ سیاسی طوطوں نے خبر دی کہ عالمی مالیاتی ادارے اور امریکہ شیخ جی کی پشت پناہی کر رہے ہیں جبکہ مقتدر چڑیوں کی چہچہاہٹ یہ بتا رہی تھی کہ حفیظ صاحب کو زرداری اشیرباد بھی حاصل ہے۔ سو 13 مارچ تک حفیظ شیخ سٹہ دوڑ میں سب سے آگے جا رہے تھے اور ایک اخبار کے مطابق ان پر لمبا چوڑا جوا لگ چکا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ 15 مارچ کو قائد حزب اختلاف نے حفیظ شیخ کو حکومتی وابستگی کے سبب سرے سے ناقابل قبول قرار دے دیا۔ کھوسو صاحب پر ان کے دو اعتراضات ہیں، ایک تو یہ کہ وہ 80 سالہ بزرگ ہونے کے سبب نگران وزیراعظم پر ذمہ داری کا دباﺅ برداشت نہیں کر سکیں گے، دوسرے یہ کہ کھوسو صاحب اور بے نظیر میں قریبی تعلق رہا ہے جبکہ عشرت حسین ایک بین الاقوامی مالیاتی ادارے میں نامزدگی کے حامل ہیں اس لئے مجوزہ اعزاز کے اہل نہیں ہیں۔
نگران وزیراعظم کی دوڑ میں حکومتی نامزدگان پر ٹھوس اعتراضات، ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور حکومت مخالف جماعتوں کی حمایت کے گھوڑے پر سوار ناصر اسلم زاہد کو حفیظ شیخ سے آگے بڑھتے ہوئے دیکھا تو سٹہ بازوں نے بھی اپنے سٹے کا رخ ان کی طرف پھیر دیا۔ 16 مارچ کو چودھری نثار نے اپنے نامزد کردہ شاکراللہ جان کا نام ایک ”خاص معلوماتی“ ایس ایم ایس آنے پر واپس لے لیا (یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ ایس ایم ایس کسی ماہر سٹہ باز کا کرشمہ تھا یا کسی بااعتماد ہمراز نے بھجوایا تھا) جونہی شاکراللہ جان نگران وزیراعظم کی دوڑ سے نکلے۔ مولانا فضل الرحمان بھی احتجاجاً حزب اختلاف کے حمایت کنندگان کے دائرے سے نکل گئے۔ ان کا فرمان تھا کہ ”شاکر بدری“ کا عمل ان کی بے قدری کے برابر ہے کیونکہ یہ قدم ان سے مشاورت کے بغیر اٹھایا گیا ہے۔ 17 جنوری کے اخبارات سے پتہ چلا کہ اس کھیل میں مالی کے ساتھ ساتھ سیاسی سٹہ بازی بھی جاری ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ مولانا کے دستبردارانہ بیان کے چند گھنٹے کے اندر اندر صوبہ خیبر پی کے میں چیف سیکرٹری کو تبدیل کرکے اس کی جگہ مولانا کی جماعت کا پسندیدہ چیف سیکرٹری تعینات کر دیا گیا۔ باقی دونوں غیر حکومتی نام وزیر اطلاعات کائرہ نے اس سٹ پٹاہٹ میں مسترد کر دئیے کہ پلیجو کا لخت جگر ان کی جماعت کے خلاف انتخابی محاذ بنا کر ان کا جگر چھلنی کر رہا ہے جبکہ ناصر اسلم کے بہنوئی کے قتل پر زرداری کا نام بطور ملزم لکھوایا گیا تھا۔ کائرہ صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ کسی بالکل نئے نام پر بھی اتفاق رائے ہو سکتا ہے۔ آخری جملے کا نچوڑ نکال کر سٹہ بازوں نے الٹی قلابازیاں لگائی ہوں گی کیونکہ ایسی صورت میں سٹہ پر لگی رقم چاندی کے بجائے سونے میں تبدیل ہو سکتی ہے اور ان سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ....
سیاست کا عجب ہوتا ہے سٹہ
یہ مٹی کو بنا دیتا ہے سونا