مشرف جیل گئے تو حکمران بن جائیں گے
پاکستان میں جیل جانے کے بعد بھی کوئی سیاستدان لیڈر نہیں بنتا البتہ حکمران بن جاتا ہے۔ ہمارے سیاستدان حکومت کو اپنی منزل سمجھتے ہیں جبکہ لیڈر بہرحال حکمران سے بہت بڑا ہوتا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کے پہلے گورنر جنرل تھے۔ کوئی انہیں سابق گورنر جنرل نہیں کہتا۔ وہ قائداعظم ہیں ہمیشہ کے لئے۔ ہمارے سیاستدان چند سال وزیر رہتے ہیں پھر ساری عمر سابق وزیر کے طور پر گزار دیتے ہیں۔ لیڈر حکمران بن سکتا ہے کبھی کبھی مگر حکمران کبھی لیڈر نہیں بن سکتا۔ کوئی ہے جو مشرف کو لیڈر کہے مگر وہ آٹھ سال سے زیادہ عرصہ پاکستان کے حکمران رہے۔ یہاں سیاستدان کئی کئی بار وزیراعظم رہ کر بھی لیڈر نہیں بن سکے۔ صدر زرداری نے غیر متوقع طور پر اپنے آپ کو کامیاب سیاستدان منوا لیا ہے۔ کاش وہ لیڈر بنتے؟ مشرف پاکستان نہیں آئیں گے اور اگر آ بھی گئے جیسا کہ اب ہمارا میڈیا شور مچا رہا ہے تو پھر وہ جیل جائیں گے۔ وہ جیل جانا پسند کریں گے کیونکہ یہ دوبارہ حکومت میں آنے کا بہترین راستہ ہے۔ زرداری صاحب جیل میں تربیت پا کے صدر پاکستان بنے۔ ایوان صدر اور جیل میں فرق مٹا دیا۔ پاکستان میں قیدی اور قائد میں فرق نہیں ہے۔ جنرل مشرف کو دوبارہ اقتدار میں لانے والے انہیں ضرور جیل بھجوائیں گے۔ سب سیاستدانوں کو ناکوں چنے چبوا دئیے انہوں نے ججوں اور جرنیلوں کو بھی حیران کیا بلکہ پریشان کیا۔ انہوں نے 18 کروڑ عوام کو دم بخود کر دیا۔ وہ اسے نہیں بھولیں گے کہ اس سے زیادہ ذلیل و خوار کرنے والا حکمران شاید ہی انہیں پھر کبھی نصیب ہو؟ حد یہ ہے کہ پیپلز پارٹی والے ”اک زرداری سب پر بھاری“ کے بعد ”اگلی باری بھی ہماری صدر زرداری“ کے نعرے لگا رہے ہیں۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ اگر حمزہ شہباز شریف آ سکتا ہے بلکہ آیا ہوا ہے تو بلاول بھٹو زرداری کیوں نہیں آ سکتا۔ وہ بھی آ گیا ہے۔ باری تو داماد کی ہے مگر کیپٹن صفدر میں صدر زرداری والی ایک بھی صلاحیت نہیں ورنہ نواز شریف مریم نواز کو کیوں میدان میں لاتے۔ اب حمزہ شہباز بھی ڈرا ہوا ہے۔ جنرل مشرف کے آنے سے پہلے ہمارا میڈیا اسے کیا سے کیا بنا رہا ہے۔ یہ بات نواز شریف کو بھی اچھی لگی ہے کہ پیپلز پارٹی سے تو جنرل مشرف کی حکومت اچھی تھی؟
ایک مشورہ جنرل مشرف کو پیش کر رہا ہوں کہ وہ نواز شریف کو جائن کرنے کا اعلان کریں۔ اپنی جماعت مسلم لیگ ن میں ضم کریں اور پھر آئیں۔ کراچی کی بجائے سیدھے لاہور آئیں ان کا شاندار استقبال ہو گا اور نواز شریف ان کے ساتھ بیٹھ کر پریس کانفرنس کریں گے۔ مشرف کے فرماں بردار وزیر شذیر نواز شریف نے بڑے دھڑلے سے لے لئے ہیں اور وہ اب ان کے دھڑے میں ہیں۔ اس میں یہ بھی آسانی ہے کہ جنرل مشرف چودھری برادران کے خلاف ہیں۔ ان کے علاوہ ق لیگ کا جو بھی آئے اتفاق ہے وہ جنرل مشرف کے بھی مرید ہیں۔ جاتی عمرہ میں ماروی میمن کے لئے کار دروازہ کھولا گیا۔ امیر مقام سے زیادہ مقام تو کسی کا نہیں۔ طارق عظیم اطلاعات کے وزیر مملکت تھے۔ ان کا کام صرف جنرل مشرف کی تعریفیں کرنا تھا۔ یہ تعریفیں اب نواز شریف کے لئے ہیں۔ ہمارے سیاستدان بڑے دھڑلے سے دھڑے بدلتے ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ یہ لوگ خود جنرل مشرف نے بھجوائے ہیں۔ طارق عظیم کے لئے تو شک ہے کہ وہ ابھی تک مشرف کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ لوٹے ق لیگ سے ن لیگ میں گئے ہیں۔ یہ کہنا بھی نامناسب نہ ہو گا کہ صرف یہی لوگ مسلم لیگ (ن) میں آئے ہیں یا گئے ہیں یہی لوگ مسلم لیگ ن سے ق لیگ میں گئے تھے اور جنرل مشرف کے ساتھ شامل ہوئے تھے۔ یہ موقع پھر بھی آ سکتا ہے۔ اس کے لئے پھر شرمساری سے بچنے کے لئے جنرل مشرف کو مسلم لیگ ن میں لے کے آنا بڑا ضروری ہے۔ پھر کوئی خطرہ بھی نہ ہو گا مگر یہ خطرہ تو پاکستانی سیاست میں ہمیشہ رہے گا۔
شوکت عزیز کی طرف سے چودھری شجاعت پر بے جا الزام کے بعد کہ لال مسجد آپریشن کا مشورہ چودھری صاحب نے دیا تھا۔ ایک ٹی وی چینل پر اعجازالحق کا پرانا پروگرام دکھایا گیا جس میں وہ لال مسجد کی شہید بچیوں کے لئے باقاعدہ رو پڑے۔ وہ روتے ہوئے اچھے لگے مگر وہ لال مسجد آپریشن کے دنوں میں مستعفی ہو جاتے اور بھی اچھا ہوتا۔ وہ اور ہمایوں اختر بھی مسلم لیگ (ن) میں آ چکے ہیں حتیٰ کے ارباب غلام رحیم بھی نواز شریف کے ساتھ بیٹھے اچھے لگ رہے تھے؟ کوئی تو پوچھے کہ انہیں سندھ اسمبلی کے باہر جوتیاں کیوں ماری گئی تھیں۔ ایک آدھ جوتی تو ان کے سر پر لگ گئی تھی۔ ایک من چلے نے یہ جوتی ارباب غلام رحیم کو تحفے میں پیش کر دی ہے۔
پاکستان واپسی کا مطلب حکومت میں واپسی ہے مگر اس آدمی کا قتل بھی ہو سکتا ہے جو واپس آ رہا ہو۔ زرداری صاحب صدر بنے مگر بے نظیر بھٹو قتل ہو گئیں ہمارے ہاں اس طرح کے قتلوں کو حکومت سازی کے لئے ایک نعمت سمجھا جاتا ہے۔ مشرف پر اکبر بگتی کے قتل کا الزام ہے۔ بگتی خاندان نے اس قتل کو اب تک بہت کیش کرایا ہے۔ نواز شریف کی جلاوطنی کے بعد وطن واپسی سیاست اور حکومت میں واپسی کے مترادف ہے۔ جلاوطنی اور ہم وطنی ایک ہو گئی ہیں۔ وہ حکومت میں آنے کے لئے اپنے مخالفوں کو بھی قبول کرتے جا رہے ہیں بعد میں وہ بھی ان کی رعایا ہوں گے۔ اس لئے پوری امید ہے کہ وہ جنرل مشرف کو بھی قبول کر لیں گے۔ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ اس طرح جنرل مشرف سے بھی انتقام لیا جا سکے گا؟ مگر وہ چودھری برادران کو قبول نہیں کریں گے کہ اس طرح مسلم لیگوں کے اتحاد کا امکان ہے جبکہ تمام مسلم لیگوں کی قیادت مجید نظامی کے ساتھ اتفاق کر چکی ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کو یہ پتہ ہے کہ قبولیت کے لئے قابلیت ضروری نہیں ہے۔
جو لوگ چار پانچ دفعہ بڑی آسانی سے حکومت میں آ جاتے ہیں یا حکومت میں لے لئے جاتے ہیں تو یہ بھی ایک طرح سے واپسی ہے۔ نجانے ہمارا میڈیا جنرل مشرف کو کیوں اٹھا رہا ہے۔ ایک نجی چینل پر بڑے کاروباری قسم کے اینکرپرسن جو صحافی کی بجائے پہلوان لگتے ہیں جنرل مشرف کو ایک سرخرو آدمی کے طور پر انٹرویو کر رہے تھے۔ ساری ٹیلی فون کالیں پازیٹو تھیں کہ خود جنرل مشرف کو شک گزرا تو اینکرپرسن نے دفاعی انداز اختیار کر لیا۔ ایک نامور اینکرپرسن کہہ رہے تھے کہ جنرل مشرف کو پاکستان کے کیپٹل میں خوش آمدید کہنے والے سیاستدانوں کی مٹی کیوں پلید کرتے ہیں۔ سیاستدان وزیر شذیر بننے کے لئے اور مفاد اٹھانے کے لئے ہر حکمران کے پاس آ جاتے ہیں۔ خواہ وہ فوجی ہو یا سیاسی۔ ہمارے ملک میں حکمران سارے ایک جیسے ہیں۔