• news

”آزادی کی کہانی“ ہندوﺅں نے میرے والد‘ والدہ اور کمسن بھائی کو شہید کر دیا : وکیلہ بیگم

لاہور (وقت نیوز) آزادی کی کہانی پاکستان بنانیوالوں کی زبانی، آزادی کی راہ میں قربانیوں کی لازوال داستانوں پر مبنی پروگرام ”ایٹ پی ایم ود فریحہ“ میں 14 اگست 1947ءکو ہندو بلوائیوں کے ظلم اور بربریت کا شکار ہونیوالی وکیلہ بیگم کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ پاکستان ہجرت کے سفر میں اپنا سب کچھ کھو بیٹھی۔ انکے والد، والدہ اور ایک بھائی ہندو حملہ آوروں کا شکار ہوگئے۔ وکیلہ بیگم نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب پاکستان بنا میری عمر 7 سال تھی۔ بلوائیوں نے ہمیں دھمکی دی کہ گھر بار چھوڑ کر پاکستان چلے جاﺅ ورنہ مار دینگے۔ ہم قافلے کی صورت میں وہاں نکلے۔ راستے میں بلوائیوں نے حملہ کردیا، اس حملے میں میری والدہ، والد اور ڈیڑھ سال کا بھائی مارا گیا۔ ہندوﺅں نے قافلے کے بہت سے لوگ مار دئیے، جو بچ گئے وہ دوبارہ اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگئے۔ وکیلہ بیگم نے بتایا کہ بلوائیوں نے مجھ پر بہت تشدد کیا اور ڈنڈوں سے مارا، اس دوران ایک سٹیشن ماسٹر نے مجھے اپنی تحویل میں لے لیا۔ بعد میں ہندوﺅں نے اس سٹیشن ماسٹر کو بھی مار ڈالا۔ درندوں میں سے ایک شخص مسیحا بن کر سامنے آیا۔ وہ ہندو تھا وہ مجھے اپنے ساتھ لے گیا۔ میں نے اسے کہا کہ میں نے ابو کے پاس جانا ہے، اس نے مجھے جوابدیا کہ تمہارے ابو نے مجھے بھیجا ہے۔ میرا کوئی بچہ نہیں، میں تمہاری پرورش کرونگا۔ دہلی کی رہنے والی رضیہ بیگم بھی پاکستان کے اس سفر میں شامل تھیں۔ اگست 1947ءمیں جب حالات خراب ہونا شروع ہوئے تو اس کے گھر والوں نے اسکی شادی طے کردی تاکہ فرض سے سبکدوش ہوجائیں۔ رضیہ بیگم نے بتایا کہ گنگا کے استھان پر ہندو مسلم فسادات ہوئے اور دونوں طرف سے کئی مارے گئے۔ پاکستان بننے کے اعلان کے بعد پہلا ہلہ سبزی منڈی میں بولا گیا اور مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ ہمارے گھر پر جب حملہ ہوا تو گھر کے تمام مرد دروازوں پر ڈھال بن گئے۔ عورتوں کو چھت پر بھیج دیا اور ہدایت کی کہ اگر بلوائی چھت پر آئیں تو کود جانا۔ رضیہ بیگم کی شادی دہشت کے سائے میں ہوئی۔ رضیہ بیگم نے بتایا کہ جب میری رخصتی ہوئی تو پولیس والے ہنس رہے تھے کہ دنیا مر رہی ہے اور اسکی شادی ہورہی ہے، ہماری بارات سے پہلے ایک بارات کو ہندو بلوائیوں نے حملہ کرکے گولیوں کا نشانہ بنا ڈالا اور کوئی بھی باراتی اس حملے میں نہ بچ سکا۔ ہماری بارات اس واقعہ کے بعد وہاں پہنچی۔ جب پاکستان کیلئے روانہ ہوئے تو اٹاری تک ڈھائی دنوں میں پہنچے۔ امرتسر کے قریب ڈوگرا فورس نے حملہ کرکے ٹرین کے ایک ڈبے میں موجود خاندان کی ایک بچی چھین لی اور اسکی عصمت دری کرکے بری حالت میں واپس کیا۔ بڑی مشکل سے لاہور پہنچی۔ اس دوران مجھے نہیں معلوم میرے ماں باپ کا کیا بنا۔ وہ اس سفر میں موت سے گلے جا ملے۔ عبدالشکور ڈوگر نے بتایا کہ چوتھی جماعت کا طالب علم تھا کہ پاکستان بننے کا اعلان ہوا۔ عبدالشکور ڈوگر نے بتایا کہ ہم گلیوں میں ”لے کے رہیں گے پاکستان“ کے نعرے لگایا کرتے تھے۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ اس وطن کیلئے ہمیں سب کچھ لٹانا پڑیگا۔ 14 ستمبر کو ہمارے گاﺅں کو چاروں طرف سے ہندوﺅں اور سکھوں نے گھیرے میں لے لیا۔ گاﺅں کے جوانوں نے جوانمردی سے مقابلہ کرتے ہوئے انہیں مار بھگایا۔ بعدازاں گاﺅں کے بزرگوں نے گاﺅں چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ گاﺅں کے قریب مسلمانوں کی سٹیٹ میں جاکر پناہ لی۔ ریٹائرڈ گورنمنٹ آفیسر شبیر احمد نے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہمارا قافلہ روانہ ہوا تو پہلا پڑاﺅ امرتسر، پٹیالہ جاکر کیا۔ پٹیالہ میں ہندو آرمی نے بتایا کہ آگے حالات خراب ہیں، واپس چلے جاﺅ۔ ہم پٹیالہ سے باہر نکلے کہ حملہ کردیا گیا۔ مہاجرین کے کیمپ میں میرا چھوٹا بھائی بھی تھا، اس نے جوانمردی سے مقابلہ کیا اور قافلے کو روانہ کیا لیکن خود جب ٹرک پر سوار ہونے لگا تو گولی کا نشانہ بن کر شہید کا رتبہ پا گیا۔ شبیر احمد کے بھائی اکتوبر 1947ءمیں شہید ہوئے۔
آزادی کی کہانی

ای پیپر-دی نیشن