گوادر پورٹ وسطی ایشیا کو یورپ تک بہترین رسائی دے گی : زرداری
اشک آباد (نوائے وقت رپورٹ+اے پی پی) صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ سکیورٹی امور، دہشت گردی کے خاتمے اور توانائی کے شعبہ میں وسیع تر علاقائی تعاون کی ضرورت ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک دنیا سے تجارت کے لئے پاکستان کی گوادر بندرگاہ استعمال کر سکتے ہیں، تمام ممالک اور بالخصوص ہمسایہ اور علاقائی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے فروغ کے خواہاں ہیں، خطے میں امن، ترقی اور خوشحالی کے لئے مل کر کام کرنے کو تیار ہیں، ہمیں تجارت، مواصلات، نقل و حمل، توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں میں قریبی تعاون کو فروغ دینا چاہیے۔ وہ یہاں رخیات پیلس میں نوروز کے تہوار کے سلسلے میں بین الاقوامی کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کر رہے تھے۔ کانفرنس میں ایران کے صدر محمود احمدی نژاد، تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف، افغانستان کے صدر حامد کرزئی، ترکمانستان کے صدر قربان گلی بردی محمدوف اور اقوام متحدہ، قازقستان، کرغزستان، آذربائیجان اور ترکی کے نمائندوں نے شرکت کی۔ صدر نے کہا کہ اس خطے کی بہت جغرافیائی اور سٹریٹجک اہمیت ہے اور خطے کے ممالک کے قدرتی وسائل سے بھرپور استفادہ کے لئے سڑک اور ریل کے بہتر رابطوں کی ضرورت ہے، پاکستان اپنا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔ ہم وسطی ایشیائی ممالک سے جنوب مشرقی ایشیا تک ایل این جی کی نقل و حمل کے لئے سہولت دینے کے لئے تیار ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی اور جدید بندرگاہ گوادر وسطی ایشیائی ممالک کے لئے بحیرہ عرب تک رسائی کا مختصر ترین راستہ ہے۔ صدر زرداری نے کہا کہ گوادر میں ایل این جی اور دوسری مصنوعات کی برآمد کے لئے شاندار سہولیات موجود ہیں اور ہم دوسرے ہمسایہ ممالک کو پائپ لائنوں کے ذریعے گیس کی ترسیل کے لئے محفوظ راہداری دینے کو بھی تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان، ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، بھارت گیس پائپ لائن (تاپی) اور ایران پاکستان گیس پائپ لائن جیسے توانائی کے منصوبوں پر عمل درآمد میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔ کچھ روز قبل ہی ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کا افتتاح کیا گیا۔ خطے میں سیکیورٹی امور اور دہشتگردی کے خاتمے کے لئے تعاون کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہے کہ امن اور استحکام اقتصادی ترقی کے لئے بہت اہم ہے۔ ہم تمام ممالک اور بالخصوص ہمسایہ اور علاقائی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے فروغ کے خواہاں ہیں اور خطے میں امن، ترقی اور خوشحالی کے لئے مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔ پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے تاریخی اور ثقافتی رابطے رہے ہیں اور پاکستان کے خطے کے تمام ممالک کے ساتھ قریبی مراسم ہیں۔ پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک اقتصادی تعاون تنظیم کے بھی رکن ہیں اور اس تنظیم کا بڑا مقصد خطے میں بنیادی ڈھانچے اور رابطے کے منصوبوں کی تعمیر ہے۔ خطے کی جغرافیائی، سٹریٹجک اور جغرفیائی و سیاسی اہمیت آنے والے سالوں میں مزید اہمیت اختیار کرے گی۔ ریل اور سڑک اور فضائی رابطوں کے ذریعے تعلقات نہ صرف خطے کے اندر بلکہ باہر بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس موقع پر تمام رہنماﺅں اور نمائندوں کی موجودگی سے ان کی مشترکہ ثقافتی اور مذہبی اقتدار و روایات کے پختہ ہونے کی عکاسی ہوتی ہے۔ ہماری مشترکہ روایات کی قدیم تاریخ ہے اور نوروز مشترکہ ورثے کی علامت ہے۔ باہمی تعلقات کے استحکام کے حیرت انگیز نتائج نکل سکتے ہیں جن سے باہمی اقتصادی ترقی کے لئے قریبی تعاون کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔ ہمیں بالخصوص تجارت، مواصلات، نقل و حمل، توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں میں قریبی تعاون کو فروغ دینا چاہیے۔ ہم مشترکہ کوششوں سے خطے میں امن لاسکتے ہیں۔ ترقی اور خوشحالی کیلئے امن ضروری ہے۔ ہمسایہ ممالک اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں تجارت کے فروغ کیلئے روابط میں اضافہ کرنا ہوگا۔ گوادر بندرگاہ وسط ایشیائی ریاستوں کو یورپ تک بہترین رسائی فراہم کر سکتی ہے۔ پاکستان وسطی ایشیائی وسائل کی برآمد کیلئے راہداری فراہم کرنا چاہتا ہے۔ تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ پر جلد عملدرآمد چاہتے ہیں۔ نو روز امن، برداشت، بھائی چارے اور مشترکہ ورثے کی علامت ہے۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر زرداری نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں پائیدار امن کا خواہاں ہے اور اس کے لئے ہر ممکن تعاون وکردار جاری رکھے گا۔ صدر زرداری نے کہا کہ پاکستان مستحکم اور پرامن افغانستان کا خواہاں ہے اور افغانستان میں پائیدار امن ،مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے کے لئے ہر ممکن تعاون اور کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ انہوں نے افغانستان کے راستے وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان تجارت اور اس سلسلے میں سفارتی سطح پر مذاکراتی عمل شروع کرنے پر زور دیا اور کہا کہ پر امن افغانستان دنیا میں امن کے لئے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔صدر زرداری اور ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے درمیان ملاقات ہوئی جس میں دوطرفہ تعلقات کے فروغ پر تبادلہ خیال کیا گیا، دونوں رہنماﺅں نے توانائی اور اقتصادی شعبوں میں تعاون کو مزید وسعت دینے پر بھی بات چیت کی۔