پولیو بدستور خطرہ، پنجاب میں 42 فیصد بچے ویکسین سے محروم ہیں، ماہرین
لاہور (رپورٹ۔ ندیم بسرا) پولیو ایک متعدی بیماری ہے جو ایک وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے۔ پاکستان میں پولیو کے خاتمے کیلئے جب تک میڈیا، سول سوسائٹیز، سماجی تنظیموں، حکومت، خطیب و علماءکرام اور سوسائٹی نے خود پیشرفت نہ کی اس وقت تک پولیو ہماری آنے والی اور موجودہ نسلوں کے لئے خطرہ رہے گا۔ پنجاب میں 58 فیصد بچوں کو بنیادی بیماریوں سے بچاﺅ کی ویکسین کے قطرے پلائے جاتے ہیں 42 فیصد بچے اس سے محروم رہ جاتے ہیں جس کی وجہ بیداری شعور مہم نہ ہونے، والدین کی عدم دلچسپی لاعلمی اور ایک شہر سے دوسرے شہر یا قصبوں میں نقل مکانی ہے۔ پاکستان میں پولیو کا وائرس آج تک جن بچوں میں پایا گیا ان میں 80 سے 85 فیصد بچے پشتون علاقوں یا افغان بستیوں کے رہائشی ہیں۔ اگر پاکستان میں 2013 میں پولیو کا مرض مکمل طور پر ختم نہ ہوا تو بیرون ملک سفری پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ شہریوں کو دوسرے ملک سفر کرنے کیلئے حتٰی کہ عمرہ، حج کرنے کیلئے پولیو ویکسین پلانے کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا لازمی ہو گا۔ پولیو کے خاتمے کیلئے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار مختلف طبی ماہرین سینئر صحافیوں اور ٹی وی پروڈیوسرز نے یونیسف کے زیر اہتمام پولیو کے خاتمے کی مہم کے عنوان سے منعقدہ ورکشاپ سے کیا۔ اس موقع پر نظامت کے فرائض یونیسف کے واصف شاہ نے انجام دئیے۔ ایڈیٹر دی نیشن سلیم بخاری نے کہا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ جو لوگ ریویو ورکرز ہماری آنے والی نسلوں کو اس بیماری سے بچانے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں ہم ان کو گولیاں مار کر قتل کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے لئے نہیں بلکہ عالمی سطح پر منفی کرداروں کو جنم دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کی کاوش بہت اچھی ہے یونیسف، محکمہ صحت پنجاب ڈبلیو ایچ او کو اس قسم کے اقدامات مزید کرنے چاہئے کیونکہ اس قسم کی ورکشاپ سے خود صحافیوں کی تربیت ہو گی اور وہ بہتر طریقے سے اس ”کاز“ کو رپورٹ کر سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پولیو کے خاتمے کیلئے مسجد، مدرسے، سکول سے آغاز کرنا ہو گا حکومت کو چاہئے کہ پولیو وائرس کے بارے میں بچاﺅ کو نصاب میں شامل کیا جائے۔ اگر آج ہم نے اس مرض کے سامنے ہار مان لی تو دنیا میں ہمارا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا مشکل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو ایسی پالیسیاں اپنانا ہوں گی جس سے مزید شعوری مہم آگے بڑھے۔ ڈائریکٹر جنرل صحت پنجاب ڈاکٹر نثار چیمہ نے کہا کہ اگر 2013 کے اندر ملک سے پولیو کا خاتمہ نہ ہوا تو سفری پابندیوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ محکمہ صحت پنجاب، یونیسف، ڈبلیو ایچ او اکیلا کردار ادا نہیں کر سکتا۔ پولیو کے خاتمے کے لئے میڈیا کو چاہئے کہ وہ اخبارات، الیکٹرانک سطح پر زیادہ سے زیادہ تشہیری مہم چلائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ والدین کے ذہنوں کے اندر جو خدشات پائے جاتے ہیں ان کو کم کرنے کیلئے مساجد کے خطیب، علمائے کرام، ناظمین، گاﺅں کے نمبرداروں کی خدمات حاصل کی گئیں ہیں۔ ڈائریکٹر ای پی آئی ڈاکٹر تنویر احمد نے کہا کہ پوری دنیا میں صرف 3 ملک رہ گئے ہیں جس میں افغانستان، نائجیریا اور پاکستان ہیں جہاں پولیو کا وائرس ختم نہیں ہو رہا۔ انہوں نے کہا کہ 2012 میں پاکستان میں 58 کیسز رپورٹ ہوئے اور مارچ 2013 تک صرف 5 کیسز رپورٹ ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ پولیو کا مسئلہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے ضرور پلائیں۔ انہوں نے اس تاثر کو زائل کیا کہ پولیو ویکسین کسی مغرب کی سازش ہے یا اس میں حرام اشیا پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیو کے قطرے بالکل بے ضرر ہیں اس میں کسی حرام شے کی ملاوٹ نہیں۔ ای ڈی او لاہور ڈاکٹر انعام الحق نے کہا کہ لاہور میں ایسی آبادیاں ہیں جہاں پر افغان باشندے، خانہ بدوش رہتے ہیں، یہ لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ مسلسل حرکت میں رہتے ہیں جس کی وجہ سے پولیو ویکسین سے محروم رہ جاتے ہیں لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری نے کہا کہ حکومتی کاوشوں اور محکموں کی مسلسل محنت کی وجہ سے پولیو کا مرض کم ہو رہا ہے۔ ہم میڈیا سے وابستہ افراد حکومت کی کاوشوں کو سراہتے ہیں۔ میڈیا اور پریس کلب جو تعاون کر سکتے ہیں وہ ہر صورت کیا جائے گا کیونکہ ایسا ہی ہمارے آنے والی نسلوں کا مسئلہ ہے۔ اس موقع پر ڈبلیو ایچ او کے ڈاکٹر عامر، یونیسف کے ڈاکٹر طاہر منظور، ڈاکٹر عامر احسان بھی موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیو کے خاتمے کیلئے جب تک مشترکہ کوششیں نہیں ہوتی اس وقت تک اس پر قابو نہیں پایا جائے گا۔ اس موقع پر صحافیوں کی طرف سے مختلف تجاویز بھی دی گئیں یونیسف کے نمائندوں، محکمہ صحت پنجاب کے اعلیٰ حکام نے میڈیا کے نمائندوں کی اس تجویز کو سراہا کہ پولیو مہم کے دوران میڈیا کی ٹیمیں بھی ساتھ جانے کی خواہش مند ہیں۔