• news

ایم ۔ایم۔عالم اور سیّد فصیح بخاری!

18مارچ کو، 78سال کی عُمر میں، انتقال کرنے والے ، 1965 ءاور1971ءکی پاک بھارت جنگ میں ناقابلِ فراموش خدمات انجام دینے والے، ائر کموڈورایم۔ایم۔عالم۔( محمد محمود عالم)۔ صِرف پاکستان کے ہی نہیں بلکہ پورے عالمِ اسلام کے ہِیرو تھے ۔1965ءکی جنگ میں انہوں نے 30سیکنڈ میں 4بھارتی طیاروں کو مار گرایا اور تین کو نقصان پہنچایا ، جِس پر انہیں ستارہءجُراءت سے نوازا گیا۔ ایم۔ایم۔ عالم کے اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان کا تعلق بنگال ( کلکتہ) سے تھا ، یعنی وہ بنگالی تھے ۔ اُن کے سارے خاندان نے، 1971ءمیں پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد ، بنگلہ دیش کے بجائے ،پاکستان کو اپنا وطن بنا لِیا تھا۔ حکومت ِپاکستان نے، اُن کے نام پر، لاہور کی ایک سڑک کا نام ایم۔ایم عالم روڈ رکھا ، تاکہ اُس روڈ پر گزرنے والے ہر شخص کے دِل میں اپنے ہِیرو کی یاد تازہ رہے ۔
جناب ایم۔ایم۔عالم نے ریٹائرمنٹ کے بعد، کسی سیاسی یا انتظامی عُہدے کی خواہش نہیں کی ۔ کوئی این ۔جی۔او نہیں بنائی اور نہ ہی پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا پر آکر ،خود کو نمایاں کرنے کی کوشش کی۔ اُنہیں مذہب ( تصّوف) سے خاص لگاﺅ تھا۔ انتہائی سادہ زندگی گزار تے تھے ، کوئی قرضہ نہیںلِیا اور نہ معاف کرایا اور نہ کسی سرکاری یا پرائیویٹ زمین پر قبضہ کِیا ۔ حُکمرانوں سے دُور رہتے تھے اور عام انسانوں کے نزدیک ۔” حزبِ اللہ“۔کے سربراہ میجر (ر) رشید وڑائچ ( مرحوم) سے میرا تعلق سرگودھا کے حوالے سے تھا اور دوستی تھی ۔ یہ میری خوش قِسمتی تھی کہ مَیں،ایک دِن گلبرگ لاہور میں، میجر وڑائچ کے گھر، پہلے سے موجود تھا کہ جناب ایم۔ایم ۔عالم، اُن سے مِلنے کے لئے تشریف لائے اور وہاں مجھے،اپنے قومی ہِیرو کی زیارت اور اُن سے باتیں کرنے کا شرف حاصل ہُوا ۔جناب ایم۔ایم ۔عالم دھیمے لہجے میں گفتگو کرتے تھے ۔ سانولے رنگ کے باوجود اُن کا چہرہ روشن تھا۔ مجھے اپنا ہِیرو اپنے دَور کے ولی کے روپ میں دِکھائی دے رہا تھا ۔ اُن سے 45/40منٹ کی ملاقات میں مَیں نہال ہو گیا ۔ ہندی زبان کے معروف شاعر گوسوامی تُلسی داس نے کہا تھا کہ ۔۔۔
” ایک گھڑی ، آدھی گھڑی، آدھی کی بھی آدھ
 تُلسی سنگت سادھ کی ، کوٹ کٹے اپر ادھ “
یعنی سادھ ( نیک ، پرہیزگار ، فقیر) کی صحبت میں ، ایک گھڑی ، آدھ گھڑی یا چوتھائی گھڑی میں بھی رہنا گناہوں کو ختم کر دیتا ہے ۔مجھے صحافی کی حیثیت سے، افواجِ پاکستان کے بہت سے حاضر سروس اور ریٹائرڈ اعلیٰ افسروں سے ملاقات کا کئی بار موقع مِلا ۔ اپنے اپنے عِلم اور فن میں طاق اور گفتگو میں چھا جانے والے ، لیکن جناب ایم۔ایم ۔ عالم اور ریٹائرڈ بریگیڈر، سیّد افضال حسین شاہ کے سِوامجھے رُوحانی طور پر کسی فوجی نے مُتاثرنہیں کِیا ۔ریٹائرمنٹ کے بعد سیّد افضال حسین شاہ اپنے دادا(چشتیہ، صابریہ،قادریہ)سلسلہ کے معروف صوفی حضرت پِیر سیّد محمد امین شاہ ؒ کے گدّی نشین ہیں ۔ خاموشی سے رفاہی کام کرتے ہیں۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت بننے سے گریز کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ۔” صوفی کے ساتھ ساتھ مولوی کی بھی عِزّت کی جانی چاہیے کہ ، دونوں اپنے اپنے انداز میں ایک ہی کام کرتے ہیں ، لیکن سب سے بڑا کام یہ ہے کہ ربّ اُلعالمین اور رحمت اُ لِلعالمین کے تصّور کو عام کرکے بین المذاہب ہم آہنگی پیدا کی جائے کہ ،علّامہ اقبالؒ اور قائدِاعظمؒ کا مِشن بھی یہی تھا “۔
افواجِ پاکستان کے بہت سے لوگوں نے ،ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مُلک اور قوم کی بہت خِدمت کی ،لیکن ہر طبقے میں دوسری قِسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں ۔ہر دور میں خود کو عام لوگوں سے برتر سمجھتے ہیں ،لیکن جمہوریت اور آزاد میڈیا کا دور ہے ۔ تنقید تو ہوتی ہے اور ہوتی رہے گی ۔ سب سے زیادہ، ڈسپلن افواجِ پاکستان میں ہوتا ہے ، لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد افواجِ پاکستان کے جو لوگ، حکومتی ملازمتیں قبول کرتے ہیں انہیں حکومتی اداروں کے ڈسپلن میں ہی کام کرنا پڑتا ہے اور سُپریم کورٹ ایک ایسا ادارہ ہے جِس کے پاس فہم وفراست کا ۔” جام ِ جم“۔ ہے ۔ روایت کے مطابق جامِ جم ۔ وہ پیالہ تھا جو ، حُکمائے یُونان نے ایران کے بادشاہ ۔” جمشید“۔ کے لئے بنایا تھا اور جِس میں دُنیا کے حالات نظر آتے تھے اور اُن حالات کے مطابق جمشید بادشاہ۔” ازخود نوٹس“۔ لیتا تھا ۔
2008ءمیں، پیپلز پارٹی کی حکومت کے قیام کے بعد جِس طرح سُپریم کورٹ کی تضحیک اور توہِین کی گئی ہے ، اُس کی مثال نہیں مِلتی ۔ سُپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل نہ کرنے کوبہادری سمجھا گیا اور ۔”صاحبِ وقت“۔ کو خوش کرنے کے لئے کئی ۔” نو سیاستِیوں“۔ نے اپنے چہرے بگاڑ بگاڑ کر، سُپریم کورٹ کے ججوں کی نام لے لے کر توہِین کی ، گویا انہوں نے غیر اعلانیہ ” توہینِ عدالت پارٹی“۔ بنا لی ہے۔ دورِ حاضر میں جتنی کرپشن ہُوئی، اُتنی گذشتہ65سالوں میں بھی نہیں ہوئی ۔قومی احتساب بیورو (نیب) کا ادارہ کرپٹ لوگوں کو قانون کے شکنجے میں جکڑ کر انہیں سزائیں دلوانے کے لئے قائم ہُوا تھا ، لیکن کرپٹ حکمرانوں کا محافظ بن گیا ۔
صدر زرداری نے، ایڈمرل (ر) سیّد فصیح بخاری کو اکتوبر 2011ءمیں چیئرمین نیب مقرر کِیا گیا ۔ اُن کے تقرر سے کچھ ماہ پہلے، اُنہیں پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی نے طلب کِیا اوراُن کی ” Garacia Spares Case“ اورAgost Submarine Scandal میں دوسرے بحریہ کے دوسرے افسروں کے ساتھ مِل کر Kickbacks ( منافع، حِصّہ یا رشوت ) وصول کرنے پر جواب طلبی کی تھی ۔ جب فصیح بخاری کے، ہاتھ میں احتساب کا ڈنڈا پکڑا دِیا گیا تو ،انہیں کون پکڑے ؟۔ یہی وجہ ہے کہ موصوف نے ،سُپریم کورٹ کے کسی بھی حُکم کی پروانہیں کی ۔ جب سیّاں بھئے صدرِ پاکستان تو ڈر کا ہے کا؟۔
سُپریم کورٹ کی طرف سے حُکم ہُوا کہ نیب حُکام۔ توقیر صادق کو چیئر مین اوگرہ مقرر کرنے اور اُسے مُلک سے فرار ہونے میں مدد دینے پر وزیرِاعظم راجا پرویز اشرف ، وزیرِداخلہ رحمٰن ملک اور پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر کو ایک ہفتے کے اندر اندر گرفتار کریں“۔اِس پر چیئرمین بخاری نے کہا ۔” میری اجازت کے بغیر کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا جا سکتا “۔ سُپریم کورٹ کی طرف سے انہیں توہینِ عدالت کے تین نوٹس دئیے گئے ۔ بخاری صاحب نے اپنے سیّاں کے نام خط لِکھ کر میڈیا کو بھی جاری کر دیا ۔ خط کا خلاصہ یہ تھا کہ۔”عدلیہ کو، انتظامیہ کو کھوکھلا کرنے کا کھُلا لائیسنس مِل گیا ہے ۔ اور وہ ( عدلیہ) اپنے کردار کی وجہ سے اپنا اخلاقی جواز کھو بیٹھی ہے۔سیاستدانوں کے خلاف ریفرینسز کے احکامات ، انتخابات سے قبل دھاندلی ہے ۔ عوام کو کسی کو بھی ۔” مقدس گائے“ ۔ یا ۔”بپھرے بیل“۔ کا درجہ نہیں دینا چاہیے “ وغیرہ وغیرہ ۔
صدر زرداری نے جناب بخاری کے خط پر تحقیقات کے لئے ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل کمِشن کانوٹیفیکیشن جاری کرایا جو بعد ازاں واپس لے لِیا گیا ۔20مارچ کو، سماعت کے دوران سُپریم کورٹ نے اس بات پر ،برہمی کا اظہار کِیا اور کہا کہ۔” ہمیں حکومت کا ماتحت سمجھ کر ڈِیل کِیا جا رہا ہے “ ۔، توہینِ عدالت کرنے پر، سیّد فصیح بخاری پر ، 2اپریل کو فردِجُرم عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے ۔ اب وہ سُپریم کورٹ کے رحم و کرم پر ہوں گے ۔ کتنا فرق ہے جناب ایم۔ایم۔عالم اور جناب فصیح بخاری میں ؟۔

ای پیپر-دی نیشن