جھوٹے وعدوں کا موسم
ایک بڑی سیاسی پارٹی نے اپنے منشور کا اعلان کر دیا۔ روٹی کپڑا اور مکان سے غریبوں کو محروم کرنے کے بعد اب مزدوروں کو قوی و صوبائی اسمبلی میں نمائندگی کا اعلان۔ پاکستان کو اندھیروں میں ڈبونے والوں نے اعلان کیا ہے کہ دوبارہ برسراقتدار آ کر 10ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کریں گے۔ 70فیصدی ٹیکس نادہندہ حکومت نے اعلان کیا کہ وہ 50لاکھ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لائے گی۔ اسی طرح مختلف پارٹیوں نے اپنے اپنے منشور کا اعلان کر دیا۔
5سال جھوٹی آس، نامکمل وعدوں، خوشنما کاغذی نعروں، انقلابی منشوروں کے ساتھ گزار کر اب پھر ہم جھوٹے وعدوں کے موسم میں داخل ہو رہے ہیں۔ یوں 5سالہ جمہوری انتقام کے پورے ہو گئے اور کرپٹ جمہوریت بیوہ ہو گئی۔ آدھا گھنٹہ میں جذباتی نعروں سے متاثر ہو کر پھر 5سال روتے اور حکمرانوں کو کوستے ہیں تو اب کیوں نہ طے کر لیں کہ قصور کس کا ہے؟ تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے قیام سے لے کر آج تک صرف وعدے کئے مگر آج تک یہ وعدے کاغذوں سے مکمل طور پر باہر نہ آ سکے۔ تمام سیاسی گروہوں کے منشور ایک جیسے ہیں۔ کس کے منشور میں کوئی نمایاں خاص تضاد نہیں۔ تقاریر کا لب لباب ایک سا۔ فکر و عمل میں کوئی فرق نہیں۔ وعدے یکساں انداز لئے ہوئے۔ ہر پارٹی قوم کی تقدیر بدل کر دوسرے خوشحال ملک کے بینک اکاﺅنٹنٹ میں جا اتری۔ پی پی پی کا دعویٰ ہے کہ گذشتہ منشور پر 85فیصد عمل ہوا۔ اس بات پر اگر یقین کر لیں تو ظاہر کردہ منشور تو کہیں نظر نہیں آتا بلکہ صورتحال ایک اور خفیہ منشور کے مطابق کچھ یوں بنتی ہے۔
مالی بدحالی کے باوجود ریلوے 5برسوں میں 2کھرب 24ارب 90لاکھ سے زائد شاہ خرچی میں لے اڑی جبکہ آمدنی صرف 98ارب 56لاکھ سے بھی کم ہوئی۔ پی آئی اے 200ارب ضائع کر دیے مزید 100ارب دیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ تجارتی خسارہ 90ارب 35کروڑ ڈالر رہا۔ سیاسی بنیادوں پر مقرر کردہ نان پروفیشنل سربراہوں کی وجہ سے 8سرکاری ادارے 5سالوں میں حکومت کی کل آمدن کا 20فیصد ڈکار گئے۔ عدم توجہ، عدم دلچسپی کے باعث ربیع سیزن میں فیصلوں کی پیداوار 20لاکھ ٹن کم رہے گی۔ عوام 5سال سکیورٹی کے سنگین خطرات سے دوچار رہی۔ 5سال پہلے اندرونی و بیرونی قرضوں کا بوجھ 6ہزار ارب روپے تھا۔ اب 13ہزار ارب روپے ہو گیا ہے۔ 19سو ارب کے نئے نوٹ چھاپے گئے۔ ڈالر 2008ءمیں 68روپے کا تھا اب 100سے 99پر آ گیا ہے۔ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ 5برسوں میں قومی خزانے کو 180کھرب کا نقصان پہنچا۔ کرپشن اور بدانتظامی نے 65سالہ تاریخ کے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ تو بھائی صاحبان پریشان ہونے والی کونسی بات ہے ہم کو تو خوش ہونا چاہئے کہ ہم برابر تمام عالمی ریکارڈ توڑتے جا رہے ہیں۔
65سالوں سے حکمران جماعت اپنے عہد و پیمان کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس حکمران کلاس نے صرف جذباتی تقریروں، شعلہ بار، بیانات سے ملکی فضا کو مسموم ہی کیا کارکردگی صرف لفاظی تک محدود رہی۔ جماعتی منشور تحریری الفاظ سے آگے نہ بڑھ سکے۔ اپنی ہی وضع کردہ ترجیحات پر مکمل طور پر عمل کرنے کی توفیق کسی کو بھی نہ ہو سکی۔ اب پھر تعلیم، صحت، روزگار سب کےلئے کے نعرے کےساتھ میدان میں حکومتی پارٹی اتر رہی ہے۔ یوں نئے الفاظ میں پرانے جھوٹے وعدوں کا موسم شروع ہو گیا۔ اپنی اور ملک کی اقتصادی ابتری میں بہتری آنے کی امید لئے ہوئے عوام تبھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ ووٹ کا صحیح جائز استعمال کریں۔ ایمانداری صلاحیت کو ترجیح اول پر رکھیں۔ ووٹ کا استعمال مکمل احتیاط اور ماضی کے دلخراش تجربات کو سامنے رکھ کر کرے۔ عوام کو اپنا منشور خود مرتب کرنا چاہئے۔ منشور کے مطابق ووٹ اس شخص کو دیں جو پاکستان کے ساتھ وفادار ہے۔ جس شخص یا پارٹی نے ترقیاتی کام کروائے ہیں اس کو ووٹ دیں جو 5سالوں میں آپ کے دکھ سکھ میں شریک رہا۔ وقت ہے اپنی ماتڑ حالت کو بدلنے کا۔ اس برے حال کے صرف آپ اکیلے ذمہ دار ہیں، اور کوئی نہیں۔ اس لئے اس مرتبہ ووٹ بیچنے کی بجائے کاسٹ کریں۔ دیانت، راست گوئی، نیک، باکردار لوگوں کو.... چند لمحوں کی پیٹ پوجا میں مت اتریے گا۔ ووٹ صرف اور صرف پاکستان کے نام۔
چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشن کو خراج تحسین اب جبکہ ہم 65سال سے ملک میں نافذ دوسرے قانون (غریب امیر) کے خاتمے کی طرف قدم بڑھا چکے ہیں اس عظیم کامیابی میں عوام کی کاوش کے ساتھ اب معزز اعلیٰ عدلیہ اور الیکشن کمشن بھی آ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ امر عوامی قوت کی تقویت کا باعث بنا ہے۔ آزاد عدلیہ کے ثمرات اب مکمل طور پر عوام تک منتقل ہونا بیحد ضروری ہیں۔ ہم اپیل کرتے ہیں کہ معزز عدلیہ اور الیکشن کمشن آئین کے مکمل نفاذ کو یقینی بناتے ہوئے انتخابی قوانین کی مکمل پاسداری کو ہر صورت ممکن بنائیں اور سیاسی بنیادوں پر کی گئی تمام کارروائیاں فوری طور پر منسوخ کر دیں۔ پاکستان زندہ باد۔