پانی کے مسئلہ پر پاکستان اور بھارت میں تصادم وتعاون کے امکانات ہیں : اقوام متحدہ
واشنگٹن(اے پی اے ) اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی پر تصادم اور تعاون دونوں کے امکانات موجود ہیں۔ آنے والے برسوں میں پانی کے وسائل کی تقسیم کا معاملہ اور زیادہ مشکل ہو سکتا ہے جبکہ امریکی انٹیلی جنس کا کہنا ہے کہ پانی کی قلت، آلودگی میں اضافہ، سیلاب اور آب و ہوا میں تبدیلی سے دنیا کے مختلف ممالک کے درمیان عدم استحکام بڑھ سکتا ہے دنیا کی سلامتی کو جو سنگین ترین خطرات درپیش ہیں ان میں میٹھے پانی تک رسائی کی غیر یقینی کیفیت بھی شامل ہے۔ امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اس معاملہ پر مارچ کے شروع میں امریکی کانگریس کو رپورٹ دی ہے۔ پانی کے عالمی دن کے موقع پر اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ پانی کی قلت سے ملکوں کے درمیان تعاون اور تصادم دونوں کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔بھارت اور پاکستان دونوںکے پاس نیوکلیئر ہتھیار موجود ہیں اور انکے درمیان جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ دونوں ملکوں کی سرحد پر لہلاتے کھیتوں کے درمیان خاردار تاروں کی باڑ کھنچی ہوئی ہے لیکن ان زمینوں کو سیراب کرنے والے پانی سرحدوں کی قید سے آزاد ہیں۔ دریائے سندھ کا طاس دونوں ملکوں میں پھیلا ہوا ہے۔ دونوں ملک آبپاشی ، پینے کے پانی اور پن بجلی کے لیے اسی پانی پر انحصار کرتے ہیں۔لیکن دونوں ملکوں کے درمیان پانی کے تنازعات تشدد سے نہیں بلکہ 1960 کے سمجھوتے کے ذریعے پ±ر امن طریقے سے حل ہوئے۔واشنگٹن کے ریسرچ گروپ سٹیمسن سینٹر میں ماحول کی سیکورٹی کے ماہر ڈیوڈ مائیکل کہتے ہیں کہ سندھ طاس معاہدہ اس لیے تیار کیا گیا اور اس پر دستخط کیے گئے کہ فریقین کو احساس تھا کہ دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم پر اگر کوئی سمجھوتہ نہ ہوا تو اس کے سنگین نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں لیکن آنے والے برسوں میں اس دریا کے وسائل کی تقسیم کا معاملہ اور زیادہ مشکل ہو سکتا ہے۔ دونوں ملک تیزی سے ترقی کر رہے ہیں اور غذا، پانی اور توانائی کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ دریا کے طاس میں مزید پانی دستیاب نہیں ہے۔ڈیوڈ کہتے ہیں کہ ایسا صرف جنوبی ایشیا میں نہیں ہو رہا ہے۔ دنیا میں ، ہمیں ایسے بہت سے علاقوں کا پتہ چل رہا ہے جہاں پانی کے قابلِ تجدید وسائل ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ افریقہ میں زیریں صحارا کے علاقے میں اور مشرقِ وسطیٰ میں دریاوں کے پانی اور زیرِ زمین پانی کے ذخائر کے حقوق جنگ کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔آب و ہوا کی تبدیلی کے ساتھ بارش کا انداز تبدیل ہو جائیگا اور کچھ علاقوں میں زیادہ بارش ہونے لگے گی اور کچھ میں کم۔ پانی کے وسائل کو مختلف علاقوں میں تقسیم کرنے کے مسائل اور زیادہ شدید ہوجائیں گے لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ڈیوڈ کہتے ہیں کہ مستقبلِ قریب میں آب و ہوا کی تبدیلی اور پانی کی قلت کا دباﺅ سب سے اہم مسئلہ نہیں ہے۔ آنے والے چند عشروں میں پانی کے وسائل پر سب سے زیادہ دباو آبادی میں اضافے سے پڑے گا۔ زیادہ آبادی کا مطلب ہے پانی کی زیادہ مانگ، بلکہ زیادہ آلودگی بھی۔ڈیوڈ کہتے ہیں کہ حالات اتنے خراب ہو سکتے ہیں کہ آلودہ پانی کی مانگ بھی بڑھ جائیگی۔ ڈیوڈ کہتے ہیں کہ انہیں ایسا مستقبل نظر آ رہا ہے جس میں پانی کے جھگڑوں پر جنگیں کم ہوں گی اور سمجھوتے زیادہ ہوں گے۔