”کھُلی کتاب۔ ۔۔بند کِتاب!“
اسلام آباد ہائی کورٹ نے، جمعیت عُلماءاسلام، (جے ۔ یو ۔ آئی ۔ف) کی درخواست منظور کرتے ہوئے ، اسے ۔”بند کِتاب“۔ کا انتخابی نشان الاٹ کرنے کا حُکم دے دِیا ہے۔ جے۔ یو آئی کے مولانا عبدالغفور حیدری نے، الیکشن کمیشن کی طرف سے۔ ”بند کِتاب“۔ کے بجائے۔ ”کھُلی کِتاب“۔ کا انتخابی نشان الاٹ کرنے کے خلاف درخواست میں ،یہ موءقف اختیار کِیا تھا کہ ۔ ”جے۔ یو ۔ آئی 1996ءسے بند کِتاب کے انتخابی نشان پر انتخابات میں حِصّہ لے رہی ہے اور عوام اِس نشان سے مانوس ہیں“۔ اُدھر الیکشن کمیشن کا یہ م¶قف تھا کہ۔ ”لوگ بند کِتاب کو، قُرآن مجید یا مقدّس کتاب سمجھ لیتے ہیں، اِس لئے جے۔ یو ۔آئی کو ۔”بند کتاب“۔ کے بجائے۔”کھُلی کِتاب“۔ کا انتخابی نشان الاٹ کیا گیا“۔لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نے، جے۔ یو ۔ آئی کو ۔ ”بند کتاب“۔ کا انتخابی نشان الاٹ کر دیا۔
انتخابات میں، ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے انتخابی نشان ،بہت اہم ہوتا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جمعیت عُلما ءاسلام کو، بند کِتاب“ کے انتخابی نشان سے بہت فائدہ پہنچا ہے۔ قرآن پاک کے آغاز میں۔ ”الکتاب“۔ سے مُراد۔ قرآنِ پاک ہی ہے۔ تورات، زبور اور انجیل کو بھی کتاب ہی کہا گیا ہے ۔ ہندوﺅں کی رامائن اور مہا بھارت کو بھی۔ ”پوِتّر گرنتھ“۔ یعنی مقدّس کتاب کہا گیا ہے اور سِکھوں کی مقدّس کتاب کا تو نام ہی۔ ”گرنتھ صاحب“۔ ہے۔ علّامہ اقبالؒ نے ۔کتاب۔"Das Kapital"۔(سرمایہ) کے مصنف ،جرمن ماہِر معیشت اور سوشل فلاسفر، کارل مارکس کی ستائش کرتے ہوئے کہا تھا۔۔۔
”نِیست پیغمبر ، و لیکن در بغل دارد کتاب“
یعنی (کارل مارکس) پیغمبر تو نہیں، لیکن۔ ”صاحبِ کتاب“۔ ہے۔ علّامہ اقبالؒ نے ایک خدا ، ایک رسول اور ایک کتاب (قرآنِ پاک) پر ایمان رکھنے والوں کے لئے، متحدہ ہندوستان میں ایک علیحدہ وطن کا، خواب دیکھا، جِسے قائدِاعظمؒ نے شرمندہ¿ تعبیر کیا، لیکن۔”الکِتاب“۔( قرآنِ پاک)۔ کی تفسیر بیان کرنے والے، کئی عُلماءنے، اُن کے خلاف کُفر کے فتوے دئیے اور انڈین نیشنل کانگرس اور اُس کے باپو گاندھی جی کا ساتھ دِیا۔ 1970ءکے عام انتخابات سے پہلے جب ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے۔”مانگ رہا ہے، ہر انسان، روٹی کپڑا اور مکان“ کا نعرہ لگایا تو اسلام پسند جماعتوں نے جواباً نعرہ لگایا۔”روٹی، کپڑا اور مکان، سب کا ضامن ہے قُرآن“۔۔
کئی بار ایسا ہُوا کہ انتخابی مہم کے دوران جب کسی اسلام پسند جماعت کا امیدوار کسی ووٹر کا دروازہ کھٹکھٹاتا اور پوچھا ہے کہ۔”آپ کو روٹی چاہئے یا قُرآن؟“۔ تو جواب مِلتا کہ۔ ”قرآنِ پاک تو ہمارے گھر میں ہے۔ روٹی نہیں ہے۔ روٹی کا بندوبست کردیں“۔ ذُوالفقار علی بھٹو نے اپنے نام۔ ”ذُوالفقار“۔ حضرت علی ؓ کی ذُوالفقار۔ (دو دھاری تلوار)۔ کی مناسبت سے، پیپلز پارٹی کے لئے انتخابی نشان۔ ”تلوار“۔ حاصل کیا۔ پیپلز پارٹی کے جلسوں میں مقرّرین ، کہا کرتے تھے کہ۔ ”ہماری تلوار، سامراج ، جاگیرداری اور سرمایہ داری کا سر قلم کر دے گی“۔ لیکن سارے سر سلامت رہے ۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کے انتخابی نشان۔ ”تیر“۔ سے ہی عوام پر ۔ ”تِیر افگنی“۔ کی گئی اُن کی وزارت عظمیٰ کے دونوں ادوار میں عوام بلبلاکر کہتے رہے کہ۔۔۔
”تِیر کھاتے جائیں گے، آنسو بہاتے جائیں گے
زندگی بھر ، اپنی قِسمت آزماتے جائیں گے“
2002ءکے عام انتخابات کی مہم کے دوران، جماعتِ اسلامی کی ہائی کمان کے رُکن ،جناب امیر اُلعظیم ، متحدہ مجلسِ عمل کے جلسوں کی رونق دکھانے کے لئے، مجھے پشاور ، نوشہرہ اور چارسدّہ لے گئے۔تینوں مقام پر، مولانا فضل الرحمن، قاضی حسین (مرحوم) مولانا شاہ احمد نورانی(مرحوم) اور دوسرے اکابرین نے، واقعی عوام کے ٹھاٹھےں مارتے ہوئے سمندر سے خطاب کِیا اور یہ بھی اعلان کیا کہ۔ ”ہم پاکستان کو، امریکہ کا قبرستان بنادیں گے“۔ پھر شریکِ اقتدار ہو کر، متحدہ مجلسِ عمل۔ تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر گئی۔ مولانا فضل الرحمن نے پہلے صدر جنرل مشرف کی۔” Good Book “۔(پسندیدہ لوگوں کی کتاب )میں رہے ۔پھِر صدر زرداری کی۔امریکہ نے پاکستان کے کئی شہروں میں نئے قبرستان آباد کر دیئے ۔مولانا کی جے۔ یو۔ آئی خوش ہے کہ اُسے۔ ”بند کِتاب“۔ کا انتخابی نشان مِل گیا ہے، لیکن مولانا فضل الرحمن جب سے سیاست میں آئے ہیں، اُن کی زندگی۔"Sealed Book"۔ ”بند کتاب“۔ نہیں بلکہ ۔ "Open Book"۔ ”کھُلی کِتاب“۔ ہے اورسارے سیاستدانوں کی کتاب بھی کھُلی ہے کہ انہوں نے ،سوشلزم، اسلام اور جمہوریت کے نام پر اقتدار میں آکر،عوام کے لئے کُچھ نہیں کِیا ،تو فوجی آمروں سے کِیا گِلہ ؟۔
ایک شخص نے اپنے دوست سے پوچھا۔ ”یار!۔ میرا شجرہءنسب گُم ہو گیا ہے۔ مجھے کیا کرنا چاہیئے؟“۔ دوست نے کہا۔ کسی سیاسی پارٹی کا ٹکٹ لے کر، انتخابی میدان میں کود پڑو۔ تمہارے مخالف اورمیڈیا والے، نہ صرف تمہیں بلکہ سارے پاکستان کو، تمہارے شجرہءنسب سے آگاہ کر دیں گے“۔ یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ الیکشن کمشن آف پاکستان کی طرف ،مختلف قومی اداروں سے، قومی و صوبائی اسمبلی کے ہر امیدوار کے شجرہءنسب و کسب کے کوائف دریافت کئے جائیں گے۔ ہر امیدوار کی۔” Book of Life“۔(کتابِ زندگی)۔ ایک کھُلی کتاب کی طرح سب کے سامنے ہوگی۔ ان لوگوں کی بھی جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ۔۔۔
”دروازہ دِل کا بند ہے، چہرہ کھُلی کتاب“
کھُلی کتاب والے، گورنر نواب ذُوالفقار علی مگسی، وزیرِ اعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی اور جے۔ یو ۔ آئی کے مولانا عبدالواسع اور پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کے ارکان اسمبلی کی حمایت سے متفقہ طور پر، نواب طارق مگسی کو بلوچستان کا نگران وزیرِ اعلیٰ منتخب کر لیا ہے۔ بلوچی زبان کی ایک ضرب المثل ہے کہ۔ ”قِبلہ اُس طرف ہے جِس طرف سب کا مشورہ ہے“۔ اِس ضرب المثل پر خیبر پختونخوا اور سندھ میں عمل کیا گیا، لیکن سندھ کے نگران وزیرِ اعلیٰ پر سو طرح کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ ضامن علی حیدر(مرحوم )نے کہا تھا ۔ ۔
”بے سرو پا،سی حکایات پہ ،مت غور کرو!
لوگ ، سو طرح سے، بدنام کِیا کرتے ہیں“
سیاست میں آنے کے بعد کسی بھی انسان کی زندگی ،بند کِتاب نہیں رہتی۔ شکل مومناں ہو، یا کتابی چہرہ ( یعنی بغیر داڑھی کے خوبصورت چہرے والے لوگ) ووٹروں کی نظریں سب پر گڑی ہیں۔ ہر ووٹر ۔داغ دہلوی کا سا عاشقانہ مزاج نہیں رکھتا۔ جنہوں نے کہا تھا۔
”پوچھتے کیا ہو ؟ یہ کیا ہے کتابی چہرہ
پہلے مَیں ہاتھ میں، قُرآن اُٹھالوں، تو کہوں“