چیف الیکشن کمشنر بیمار‘ عیسانی کی عدم حاضری‘ نگران وزیراعظم کا فیصلہ آج ہو گا: عام انتخابات کے لئے کاغذات نامزدگی آج سے جمع ہونگے
اسلام آ باد (خبر نگار خصوصی/ این این آئی/ نوائے وقت رپورٹ) نگران وزیراعظم کی تقرری کیلئے الیکشن کمشن کا اجلاس فیصلہ نہ کر سکا آج دوبارہ اجلاس ہو گا، کمشن نے سیاسی جماعتوں کی جا نب سے جن ناموں پر اعتراضات کئے گئے ہیں ان پر غور کرنے یا نہ کرنے کا بھی حتمی فیصلہ نہ کر سکا۔ بعض ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ روشن عیسانی کمشن کی جانب سے کاغذات نامزدگی کے فارم کی صدر سے منظوری کے بغیر چھپائی کے ایشو پر دیگر ارکان سے اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ انہوں نے مذکورہ فیصلے کی مخالفت کی تھی اور اختلافی نوٹ بھی دیا تھا۔ ان کی ہفتہ کو کمشن کے اجلاس میں عدم موجودگی اس حوالے سے پیدا ہونے والے اختلافات کا شاخسانہ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ روشن عیسانی نے آج کے اجلاس میں شر کت نہ کی تو کمشن نگران وزیراعظم کا فیصلہ کر دے گا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما ڈاکٹر طارق فضل چودھری آج دوبارہ اپنے اعتراضات الیکشن کمشن پیش کریں گے۔ ہفتہ کو بھی ڈاکٹر طارق فضل چودھری نے سیکرٹری الیکشن کمشن سے ملاقات کی تھی۔ ہفتہ کا اجلاس کسی نتیجے پر پہنچے بغیر تک ملتوی کردیا گیا‘ اجلاس کی التواءکی وجوہات سندھ سے کمشن کے رکن روشن عیسانی کی عدم شرکت چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کی ناسازی طبع بتائی گئی ہے، کمشن کا اجلاس آج صبح دس بجے دوبارہ ہوگا جس میں نگران وزیراعظم کا اتفاق رائے یا کثرت رائے سے فیصلہ کیا جائے گا۔ ہفتہ کو نگران وزیراعظم کی تقرری کیلئے کمشن کا اجلاس صبح دس بجے چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کی زیر صدارت شروع ہوا۔ اجلاس میں ممبر پنجاب جسٹس (ر) ریاض کیانی‘ ممبر کے پی کے شہزاد اکبر اور ممبر بلوچستان جسٹس (ر) فضل الرحمن نے شرکت کی۔ ممبر سندھ روشن عیسانی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے جن کے بارے میں الیکشن کمشن نے پہلے مو¿قف اختیار کیا کہ ان کیساتھ کراچی میں ہی ویڈیو کانفرنس سے مشاورت کرکے ان کا نکتہ نظر معلوم کرلیا جائے گا مگر بعدازاں سیکرٹری الیکشن کمشن نے آگاہ کیا کہ ممبر سندھ شام سات بجے اسلام آباد آ رہے ہیں۔ ان کی آمد پر نگران وزیراعظم کے تقرر بارے رات گئے کوئی فیصلہ کرلیا جائے گا۔ قبل ازیں کراچی سے اسلام آباد پہنچنے پر چیف الیکشن کمشنر نے دو دن کی بجائے دو گھنٹے کے اندر نگران وزیراعظم کے تقرر کی خوشخبری سنانے کا اعلان کیا تھا لیکن سیکرٹری الیکشن کمشنر اشتیاق احمد خان نے نماز ظہر اور کھانے کے وقفے کے دوران ہی بتا دیا تھا کہ معاملہ اتوار تک جاسکتا ہے۔ ہفتہ کو الیکشن کمشن کے اجلاس کے دو سیشن ہوئے۔ پہلا سیشن صبح دس بجے شروع ہوکر نماز اور کھانے کے وقفے اور دوسرا سیشن شام گئے فخرالدین جی ابراہیم کی طبیعت ناساز ہونے پر ختم ہوا۔ ذمہ دار ذرائع کے مطابق کمشن کے ان کیمرہ اجلاس کے دوران متعدد بار کمشن کے ارکان کے درمیان اختلاف رائے سامنے آیا۔ ایک بار کمشن نے اس تجویز کا بھی جائزہ لیا کہ ممبر سندھ روشن عیسانی کی شرکت کے بغیر ہی کثرت رائے سے نگران وزیراعظم کا تقرر کرلیا جائے لیکن طویل بحث مباحثے اور مشاورت کے بعد اس تجویز کو مسترد کردیا گیا اور ان کی شرکت کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق ممبر پنجاب نے موقف اختیار کیا کہ وزیراعظم کا تقرر آئینی معاملے کیساتھ ایک حساس سیاسی ایشو بھی ہے اسلئے چاروں صوبوں کے ممبران کی کسی فیصلے پر پہنچنے سے پہلے اجلاس میں موجودگی ضروری ہے۔ میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری الیکشن کمشن اشتیاق احمد خان نے بتایا کہ نگران وزیراعظم کے حوالے سے سیکرٹری قومی اسمبلی کی طرف سے چار نام بھجوائے گئے ہیں الیکشن کمشن نے اپنے پہلے اجلاس میں ان کا جائزہ لیا ہے۔ الیکشن کمشن پر کوئی دباﺅ نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمشن کے سندھ سے رکن روشن عیسانی کراچی میں ہونے کے باعث اجلاس میں شریک نہیں ہو سکے۔ نجی ٹی وی کے مطابق کمشن کے رکن جسٹس (ر) ریاض کیانی نے بتایا کہ نگران وزیراعظم کیلئے کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ اجلاس چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کی ناسازی طبیعت کی وجہ سے ملتوی کیا گیا ہے جبکہ رکن سندھ کی عدم موجودگی کے باعث بھی اجلاس ملتوی کیا گیا ہے۔ نگران وزیراعظم کا اعلان آج کر دیا جائیگا۔ الیکشن کمشن آئین کے تحت نگران وزیراعظم کے تقرر کا آخری فیصلہ کرے گا۔ اس سے قبل چیف الیکشن کمشن فخر الدین جی ابراہیم سمیت چاروں صوبوں کے ممبر الیکشن کمشن جن میں پنجاب، خیبر پی کے اور بلوچستان کے شامل ہوئے سیکرٹری الیکشن کمشن نے اشتیاق احمد کہا کہ میں میڈیاکا تجسس ختم کرنے کیلئے آیا ہوں۔ الیکشن کمشن میں کوئی اختلافات نہیں‘ سندھ سے کمشن کے رکن روشن علی عیسانی روٹھ کر نہیں گئے، وہ سپریم کورٹ کے کراچی میں حلقہ بندیوں بارے حکم پر عملدرآمد کیلئے سندھ الیکشن کمشن کے اجلاس میں شرکت کیلئے گئے تھے‘ الیکشن کمشن کو سیکرٹری قومی اسمبلی کے علاوہ پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ اور فاروق ایچ نائیک کے خطوط ملے ہیں ‘ کمشن صرف ان چار ناموں پر ہی غور کررہا ہے جو ہمیں دئیے گئے ہیں‘ الیکشن پر کسی طرح کاکوئی دباﺅ نہیں‘ پی سی او جج کے بارے میں کوئی جواب نہیں دونگا۔ اشتیاق احمد نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی نے 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی بنائی تھی جس میں 4 اپوزیشن اور 4 حکومتی اراکین شامل تھے اور وہ تین دن تک وزیراعظم کے تقرر کیلئے بیٹھے رہے مگر کسی فیصلے پر نہ پہنچ سکے۔اس حوالے سے سیکرٹری قومی اسمبلی نے ہمیں خط لکھا جو ہمیں موصول ہوا۔ اس میں کہا گیا کہ پارلیمانی کمیٹی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔ نگران وزیراعظم کے حوالے سے الیکشن کمشن کے معیار کے بارے میں سوال پر سیکرٹری الیکشن کمشن اشتیاق احمد نے کہا کہ ہم نے پارلیمانی کمیٹی سے 3 دن کی گفتگو کے منٹس مانگ لئے ہیں اس بارے میں سیکرٹری قومی اسمبلی کو خط بھی لکھ دیا ہے۔ سیکرٹری الیکشن کمشن نے خورشید شاہ کے خط کے حوالے سے کہا کہ خورشید شاہ نے جو حکومت کی طرف سے ہمیں خط لکھا اس میں 3 دن کی تفصیلی گفتگو کے بارے میں آگاہ کیا گیا، خط میں مجھے کہا بھی گیا کہ یہ خط میں کمشن کے آگے رکھوں۔ سیکرٹری الیکشن کمشن نے صحافیوں سے کہا کہ میڈیا سے ہمارا بڑا احترام کا تعلق ہے، میں تمام سے کہوں گا کہ کچھ ملکی اہم امور ہوتے ہیں جس کے نتیجے تک پہنچنے کیلئے ان تمام امور کو غور سے دیکھنا پڑتا ہے۔ اجلاس میں ڈاکٹر عشرت حسین، جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد، رسول بخش پلیجو اور میر ہزار خان کھوسہ کے ناموں پر غور کیا جا رہا ہے۔ ادھر الیکشن کمشن کے رکن جسٹس (ر) روشن عیسانی اسلام آباد چلے گئے۔ نجی ٹی وی کے مطابق روشن عیسانی نے کہاکہ نگران وزیراعظم کے نام پر ابھی اتفاق نہیں ہوا۔ الیکشن کمشن مجھ سے ٹیلی فون پر رابطے میں رہا تاہم ویڈیو لنک پر کوئی بات نہیں ہو سکی۔ سیکرٹری الیکشن کمشن اشتیاق احمد کا کہنا ہے کہ نگران وزیراعظم کا فیصلہ آج ہر صورت ہو گا، فیصلہ کن اجلاس آج صبح دس بجے ہو گا، قوم کو نگران وزیراعظم کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں ہونا چاہئے، کمشن کا کورم پورا ہے۔ الیکشن کمشن نے کہا کہ حساس پولنگ سٹیشنز کی تعداد 25ہزار سے بڑھ سکتی ہے۔ 2008ءمیں حساس پولنگ سٹیشنز 21ہزار تھے۔ حساس پولنگ سٹیشنز کی فہرست بنتے ہی عسکری حکام کو بھیجی جائے گی۔
لاہور + اسلام آباد (خصوصی رپورٹر + خبر نگار خصوصی) الیکشن کمشن نے قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدواروں سے کاغذات نامزدگی طلب کر لئے ہیں۔ کاغذات نامزدگی (آج) سے ریٹرننگ افسر وصول کریں گے۔ کاغذات کی وصولی 29 مارچ تک جاری رہے گی۔ 30 مارچ سے 5 اپریل تک متعلقہ ریٹرننگ افسر سکروٹنی کریں گے۔کاغذات نامزدگی کے قبول یا مسترد کئے جانے کے ریٹرننگ افسر کے فیصلے کے خلاف انہیں 9 اپریل تک دائر کی جا سکیں گی جن پر الیکشن ٹربیونل 16 اپریل تک فیصلے کریں گے۔ کاغذات نامزدگی کی واپسی کی تاریخ 17 اپریل اور امیدواروں کی حتمی فہرست 18 اپریل کو جاری کی جائے گی جبکہ 11 مئی کو پولنگ ہو گی۔ الیکشن کمشن کے آئندہ عام انتخابات کے شیڈول کے مطابق کاغذات نامزدگی آج سے 29 مارچ تک ریٹرننگ افسروں کے پاس جمع کرائے جا سکیں گے۔ الیکشن کمشن نے کہا ہے کہ اس شیڈول کا اطلاق قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے خواتین اور اقلیتوں کی مختص نشستوں پر بھی اسی طرح ہو گا۔ امیدواروں کیلئے 19 اپریل سے 9 مئی تک کل 22 دن انتخابی مہم چلانے کیلئے دئیے گئے ہیں۔ امیدوار مقررہ مقام پر جلسے اور کارنر میٹنگز کر سکیںگے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کیلئے الیکشن کمیشن نے پہلی بار لازمی قرار دیا ہے کہ وہ انتخابی اخراجات اسی مقصد کے لئے کھولے گئے اکاﺅنٹ سے کر سکیں گے۔ امیدواروں کے لئے بینر اور پوسٹرز کے سائز بھی متعین کئے گئے ہیں۔ امیدواروں کی جانب سے اپنے حق میں وال چاکنگ کی مکمل پابندی ہوگی‘ نظریہ پاکستان‘ ملکی سالمیت اور سلامتی ‘ عدلیہ کی آزادی‘ افواج پاکستان کے خلاف کسی قسم کا پراپیگنڈا ممنوع ہو گا‘ انتخابات کے احسن طریقے سے انعقاد کے لئے امیدوار انتخابی قواعد و ضوابط کی مکمل پاسداری کریں گے۔ انتخابی جلسوں اور ریلیوں کے شیڈول سے مقامی انتظامیہ کو آگاہ کیا جائے گا۔کسی کی ذات یا خاندان کے خلاف ہرزہ سرائی نہیں کی جاسکے گی‘ 9 مئی کی رات 12 بجے سے قبل انتخابی مہم بند کردی جائے گی۔ پولنگ سٹیشن کے 400 گز کے اندر ووٹروں کو قائل کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ پولنگ سٹیشن سے سو گز کے فاصلے پر امیدواروں کے کیمپ قائم کئے جاسکیں گے۔ امیدواروں کی جانب سے ووٹروں کو ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ امیدواروں کے لئے لازمی ہے کہ وہ 2X3 فٹ کے پوسٹر‘ 3X5 کے ہوڈنگ‘ 3X9 کے بینر اور 9 انچ لمبے اور 6 انچ چوڑے ہینڈ بلز تقسیم کرنے کی اجازت ہو گی۔ صرف سیاسی جماعتوں کی پالیسیوں اور ماضی کے کام کے ریکارڈ یا پروگرام پر تنقید کی جا سکے گی۔ دریں اثناءڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسروں کو مجسٹریٹ کے اختیارات دیدئیے گئے ہیں۔ یہ اختیارات ان کے پاس انتخابات کے نتائج تک رہیں گے۔ 126 ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز اور 425 ریٹرننگ آفیسرز کو اختیارات دئیے گئے۔ یہ افسر قانون کی خلاف ورزی کرنیوالوں کو سزا دے سکیں گے۔