ہمارے اباﺅ اجداد کی قربانیاں اور نئی نسل
مکرمی!آج اگر ہم آزاد ملک پاکستان میں سانس لے رہے ہیں اور آزادی کے مزے لوٹ رہے ہیں تو ان سب چیزوں کی کامیابی کا سہرا ہمارے آباﺅ اجداد کی قربانیوں کو جاتا ہے جنہوں نے کسی بھی قسم کی قربانی دیتے ہوئے یا آزادی حاصل کرنے کیلئے اس چیز کا لالچ نہیں کیا کہ ہمیں آگے چل کر ایک اعلیٰ قسم کی نوکری، جائیداد یا پھر بینک بیلنس ملے گا بلکہ ان کا ایک ہی عزم تھا کہ ہماری آئندہ نسلیں آزاد فضا میں سانس لیں۔ اسلام کے اصولوں پر عمل پیرا ہوں ان کو کسی ہندو یا انگریز کی غلامی نہ کرنی پڑے لیکن اگر ہم آجکل کے بچوں کو دیکھتے ہیں جو کہ اس ملک کی گلیوں میں آزادانہ گھومتے تو ہیں لیکن ان کی زبانوں پر انڈیا فلموں کے گانے سرعام سُننے کو ملتے ہیں کہ ”پھر بھی دل ہے ہندوستانی“ تو ایک تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔ آزادی کے جوش میں بھرے ہوئے ان دلوں کی کیفیت کا احساس ذہن میں آ کر رُک جاتا ہے جنہوں نے اس آزادی کی خاطر اپنے جوان بیٹوں کے جسموں کے خون آلود ٹکڑوں کو بوڑھے ہاتھوں نے خود کفن کی دو چادروں میں سی کر سپردِ خاک کیا یا پھر ان بچوں کا سوچئے جنہوں نے اپنے ماں باپ کو اس ملک پر خوشی خوشی قربان ہوتے دیکھا اور ہندوﺅں کے جتھے ہر قسم کے مہلک ہتھیاروں سے لیس جگہ جگہ گھات لگا کر مسلمانوں کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ تاریخ یہ کبھی نہ بتا سکے گی کہ گلی کوچوں، سڑکوں اور بازاروں میں کتنے مسلمان شہید ہوئے، گھر لُٹ چکے تھے، مسجدیں ویران پڑی تھیں، کنوئیں مسلمان عورتوں کی لاشوں سے اٹا اٹ بھرے ہوئے تھے۔ کتنے لوگ تہ تیغ ہوئے؟ کتنی عصمتیں لُٹیں؟ کتنے معصوم بچے مارے گئے۔ ان سوالوں کا جواب تاریخ کے حساب دان دینے سے سراسر قاصر ہیں۔ ان کا جواب صرف پاکستان کی بنیادوں میں محفوظ ہے۔ اُن میں سے جو لوگ آج زندہ ہوں گے کیا اُن کو یہ سارے حالات ایک دکھ درد کی کیفیت میں مبتلا نہ کرتے ہوں گے کہ آج اُن کی قربانیوں کو یاد کرنے کی بجائے یہ یاد کیا جاتا ہے کہ انڈیا کے چینل پر فلاں ڈرامہ کس وقت لگتا ہے اور فلاں فلم، یا پھر ہمارے جدید سوچ رکھنے والے مشہور اینکرز باآواز بلند اور فخر سے اس بات کو کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کی سرحدوں کی دوریاں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، ہمارے دل تو ایک ہیں۔(فاطمہ بتول ولد محمد یعقوب ۔ مکان نمبر 15 گلی نمبر 144 محلہ مادھو لال حسین باغبانپورہ لاہور)