انتخابی ٹکٹ .... شریف زادوں کا امتحان
جنرل پرویز مشرف نے وطن واپسی کا ارادہ باندھا ہے ۔پہلے تو باندھے ہوئے ایسے ارادے ٹوٹتے رہے۔وہ اس وطن کے ساڑھے آٹھ سال سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ جس پر چاہتے نوازشات کی برکھا برسا دیتے۔ جس کے نشیمن پہ چاہتے بجلیاں گرا دیتے۔ نواز شریف کا تختہ الٹا تو مشرف مقبولیت کے عروج پر نظر آئے۔ جبکہ میاں نواز شریف کی پشت خالی ہو گئی۔ ان کے ہمقدم صرف ان کا خاندان تھا۔ میں نے اکتوبر 1999ءکی نوائے وقت کی فائل کھنگالی تو اس میں نواز شریف کی حمایت میں تین چار لوگوں کے بیانات ہی نظر آئے۔ باقی یوں لگتا ہے بڑے لیڈر اور چھوٹے کارکن دبک گئے تھے۔ ایک ماہ گزرا پھر دوسرا اور تیسرا، جب چوری کھانے والے میاں مٹھوﺅں کو یقین ہو گیا کہ مشرفی مارشل لاءپھانسیوں اور کوڑوں والا نہیں ہے تو لیڈران کرام اور کارکنان عظام کا شریف زادوں کی محبت کاجنون اور ان پر مر مٹنے کا جذبہ و ولولہ ساتویں آسمان کی بلندیوں کو چھوتا ہوا نظر آیا۔ پھر مشرف کے ساتھیوں نے کسی کو شہد چٹایا، کسی کو ڈنڈا دکھایا تو ن لیگ کا چمنستان ویرانیوں میں بد لتا چلا گیا۔ ن لیگ کے آسمان پر دمکنے والوں ستاروں کو بوٹوں کی آفتابی چمک نظر آئی تو وہ ان سے لپٹ گئے۔ شریف فیملی صحرا میں خزاں رسیدہ شجر کی طرح یکا تنہا ہو گئی۔ سیاست میں مقام اور ایمان بدلنے میں دیر نہیں لگی۔ کئی سال بعد ہی سہی مشرف کا ستارہ گردش میں آیا۔ ان کی پہلی غلطی جمہوریت پر شب خون مارنا اور اس سے بھی بڑی خود کو بے وردی کرنا تھا جس نے انہیں بے بال و پر کر دیا۔ آج وہ مقبولیت کے اسی مقام پر ہیں جس پر ق لیگ کے جنم کے بعد ن لیگ تھی۔ مشرف کی پاکستان آمد کا غوغاہے۔ یہ کسی بھی پاکستانی کی طرح ان کا اپنا وطن ہے۔ وہ کمانڈو ہیں موت سے نہیں ڈرتے۔ محترمہ جیسی سیکورٹی پر اکتفا کا اعلان کیاہے، جس کے باعث محترمہ کی جان چلی گئی۔ مشرف کی پارسائی سے کون آگاہ نہیں، فرماتے ہیں کبھی نائٹ کلب نہیں گیا۔ جن کے آنگن میںرنگ و نوراور رقص وسرود کی کہکشائیں اتر آئیں انہیں نائٹ کلبوں کے راستوں میں خواری کی ضرورت کی کیا ضرورت ہے؟۔ خدا ان کی عمر دراز کرے۔ انہوں نے کئی دشمنیاں پال رکھی ہیں،نہ جانے وہ اپنی جان کے پیچھے کیوں پڑ گئے۔ محترمہ بینظیر کے قتل کا ان پر الزام ہے۔ اس طرف سے بے فکر ہیں کیونکہ پی پی والوں نے اپنی انا، ضمیر اور غیرت کواقتدار کی درگاہ پر قربان کر دیا۔ مسلم لیگ ن والے ایسا خون اپنے سر نہیں لیں گے جس کے لئے کئی لوگوں کے اندر انتقام کی بجلیاں بھری ہوئی ہیں۔ طالبان کو شاید ان کی آمد کا بے چینی سے انتظار ہو، اکبر بگٹی کی اولاد نے علی الاعلان سر کی قیمت مقرر کر رکھی ہے۔ مشرف ان معاملات کو کسی سے بھی بہتر جانتے ہیں۔ چاروں صوبوں سے الیکشن لڑنے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں۔یہ ان کا حق ہے دیکھئے الیکشن کمشن اور ان کے زخم خوردہ افتخار چودھری ان کو یہ حق دیتے ہیں یا نہیں۔ البتہ ان کا فلپائن کے اکینو، ایران کے خمینی اور پاکستان کی بینظیر بھٹو جیسا استقبال ممکن نہیں۔ سیاست میں پارٹیوں اور شخصیات کا مقام بدلتا رہتا ہے فی الحال مشرف کے مقدر میں وہ مقام نہیں جس پر آج مسلم لیگ ن ہے۔ مشرف نے ن لیگ کو پستیوں میں گرایا لیکن قدرت نے کچھ سال بعد اسے پھر عروج پر پہنچا دیا۔ آج نواز شریف طاقت محور بنے نظر آ رہے ہیں۔ جس طرح مشرف کے گرد سیاستدان اکٹھے ہوئے تھے آج نواز شریف کے گرد منڈلا رہے ہیں۔ مشرف کی درگاہ پر ماتھے ٹیکنے والے شریف زادوں کی بارگاہ میں دست بستہ کھڑے ہیں۔ اعجازالحق نے فرمایا” ن لیگ کے ساتھ مل کر الیکشن لڑیں گے، پیپلز پارٹی کی شکست واضح ہو چکی ہے“ بڑے پتے کی بات کی! ن لیگ کے ساتھ مل کر اسی لئے الیکشن لڑیں گے کہ پی پی پی کی شکست واضح ہو چکی ہے۔ یہی سوچ پی پی پی ، ق لیگ اور دوسری پارٹیاں چھوڑ کر ن لیگ میںآنے والوں کی ہے۔
مسلم لیگ ن کی کامیابی کی راہ پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سالہ کمالات کے ذریعے ہموار کر دی جس پر لوٹے لڑھکتے چلے آ رہے ہیں۔ کل کوئی وردی والا نظر آیا تویہ ایک بار پھر ن لیگ کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے میں لمحہ بھر کی تاخیر نہیں کریں گے۔ مسلم لیگ ن سے ٹکٹ کے خواستگاروں کی تعداد اس کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہی مرحلہ شریف زادوں کی دانش کی آزمائش ہے۔ دانش جتنی بھی ہے اس کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ گو مسلم لیگ ن کے لیڈروں اور کارکنوں کی ایک بڑی بلکہ بہت بڑی تعداد بوٹوں کی دھمک پر ہی ڈھیر ہو گئی تھی لیکن پھر رفتہ رفتہ بہت سوں نے تجدید عہدِ وفا کیا اور وہ کئی سال سے وفا کو نبھا بھی رہے ہیں یہی نظر التفات کے مستحق ہیں۔ 2008ءکے انتخابات میں پی پی پی اور ق لیگ کے ٹکٹوں پر جیتنے والے، ن لیگ کی چوکھٹ پر کیوں چلے آئے؟ یہ واضح ہے۔ اب تک کے شواہد یہی بتاتے ہیں کہ شریفوں کے حریفوں کو بھی اپنی حیثیت کا پتہ چل گیا ہے۔ ن لیگ ایک بار پھر 97ءکی پوزیشن پر نظر آ رہی ہے۔ پارلیمنٹ میں شریف زادے ن لیگ کے وفاداروں کو لائیں نہ کہ ثمر آور گلستان دیکھ کر اڑان بھرنے والے پرندوں کو، کرگس اور شاہین کا فرق ملحوظ رکھیں۔ مولوی (قادری )کی اذاں بھی آپ آزما چکے ہیں، مجاہدوں کی بھی سن لیں۔ 2008ءمیں جیتنے اور ہارنے والوں کو پہلی ترجیح میں رکھیں۔ ان میں سے اگر کوئی خدا یا کسی دوسری پارٹی کو پیارا ہو گیا تو کارکنوں کی کمی نہیں ،ان کو ٹکٹ دیں۔ جو کل جعلی ڈگری اور دہری شہریت کے باعث بدنامی کا باعث بن سکتے ہیں ان سے آج ہی جان چھڑا لیں۔ لوٹا کریسی کا خاتمہ، آپ کی عزت میں اضافے کا باعث بنے گا۔ ان کو پارٹی میں خوش آمدید ضرور کہیں لیکن ان کی وفاداری کم از کم اگلے الیکشن تک (جو 2018ءمیں ممکنہ طور پر ہونے ہیں) ضرور آزمائیں۔ ابھی صرصر ہیں صبا نہیں بن سکتے۔ یہ خاک ہیں ان کو سونا نہ بنائیں۔ آپ ان کی کامیابی کی بھی ضمانت کیوں بننا چاہتے ہیں جو 2008ءکے الیکشن میں آپ کی پارٹی کے مقابل آکراپنی ضمانتیں ضبط کرا چکے ہیں؟۔ ایسے لوگ جیتے تو کسی بھی وقت آپ کو، آپ کی پارٹی اور متوقع طور پر بننے والی حکومت کو ایک بار پھر تاریکیوں کی پستی میں گرانے میں مہرہ بن سکتے ہیں۔میاں صاحب !اپنے ہاتھوں سے قاتل کو خنجر نہ تھمائیں۔