• news
  • image

جمہوریت نام ہو امانت، دیانت اور صداقت کا

ذرا اندازہ کریں کہ برطانوی پارلیمنٹ (ہاﺅس آف کامنس) میں ممبران پارلیمنٹ کی کل تعداد 646 ہے اور پارلیمنٹ ہال کے اندر ممبران پارلیمنٹ کے بیٹھنے کی گنجائش 437 کی ہے۔ اکثر ممبران پارلیمنٹ سپیکر کی کرسی کے آس پاس کھڑے ہو کر پارلیمنٹ کی کارروائی میں شریک ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ کا زیادہ تر کام کمیٹیوں کے ذریعے کیا جاتا ہے جن کا انتظام پارلیمنٹ ہال کے باہر ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کے ممبران کے ذمے بہت سے کام ہوتے ہیں جن کے سبب انہیں ہاﺅس آف کامنس اور اپنی انتخابی حلقے کی بہت سی سرگرمیوں میں مشغول رہنا پڑتا ہے اور وہ اپنے حلقے کے لوگوں کے بتائے گئے معاملات بھی نمٹاتے ہیں۔ برطانوی پارلیمانی نظام نے گذشتہ 700 برسوں میں ایک ارتقائی سفر طے کیا ہے۔ ہاﺅس آف لارڈس اور ملکہ برطانیہ کی شراکت میں ہاﺅس آف کامنس اس پارلیمانی نظام کا ایک حصہ ہے۔ ہاﺅس آف لارڈس کے ممبران کی تعداد حتمی نہیں ہوتی لیکن 25 جولائی 2012ءکے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ہاﺅس آف لارڈس میں 800 کے قریب ممبران کی تعداد موجود ہے۔ حکومتی سطح کا کوئی اخراجاتی بل، وزرائ، مشیروں اور حکومتی افسران کے لئے مالی مراعات تمام کی تمام پارلیمنٹ کی متعلقہ کمیٹیوں سے منظوری کے بعد پارلیمنٹ سے باقاعدہ منظور کروائی جاتی ہیں اول تو ممبران پارلیمنٹ اور وزراءکے علاوہ سپیکر، وزیراعظم اور اسی طرح مسلح افواج کے جرنیلوں، ائر مارشل اور ایڈمرل کے علاوہ افواج کے سربراہوں کے لئے خاص مراعات جو کہ ریٹائر ہونے کے بعد دی جائیں کوئی خاص نوعیت کی نہیں ہوتیں۔ سبکدوش ہونے کے بعد وزیراعظم، سپیکر، وزراءاور اس کے علاوہ مسلح افواج کے افسران سب ہی عام شہری تصور ہوتے ہیں جو قانون کے مطابق مراعات طے ہیں اس کے علاوہ کوئی ترمیم شدہ مراعات ممکن ہی نہیں۔ یہ تمام تذکرہ برطانیہ کا ہے جسے پارلیمنٹ کی ماں اور جمہوریت کی ماں مانا جاتا ہے۔ پاکستان کے تمام کے تمام حکمران اور سیاستدان برطانیہ ہی کو اپنا دوسرا گھر تصور کرتے ہیں جب وہ اقتدار سے باہر ہوں تو یہاں قیام کرتے ہیں کیونکہ برطانیہ ہی میں ان کے اپنے رہائشی فلیٹس موجود ہیں اور سرمایہ برطانوی بنکوں میں محفوظ پڑا ہے جب یہ لوگ اقتدار میں ہوتے ہیں تو سرکاری دوروں پر برطانیہ آنا جانا ان کے اقتدار کا اہم حصہ شمار ہوتا ہے لیکن حکمرانوں اور سیاستدانوں نے برطانیہ کی جمہوریت اور یہاں کے آئین اور قانون و ضابطوں سے کوئی سبق ہی نہیں سیکھا۔ یقین جانئے کہ دل کی باتیں دل کی آواز بن کر ہاتھوں سے لکھ رہا ہوں۔ ذرا غور فرمائیں کہ برطانیہ جو جمہوریت کی ماں ہے اس کی پارلیمنٹ کے ممبران اور سپیکر ریٹائر ہو کر عام شہری کی حیثیت میں زندگی بسر کرتے ہیں نہ سرکاری مراعات، نہ کوئی نوکر چاکر، نہ ہی کوئی سیکورٹی گارڈ حتیٰ کہ سابق وزیراعظم بھی رسمی سی سیکورٹی کے حقدار ہوتے ہیں۔ ہر روز لندن کی انڈر گراﺅنڈ ٹرینوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہوئے جرنیلوں، ائر مارشل اورایڈمرل صاحبان کے علاوہ سابق وزراءکو میں نے دیکھا ہے۔ برطانوی سیاست میں پروٹوکول نام کی چیز اور وی آئی پی کلچر نہ ہونے کے برابر ہے۔ برطانوی آئین جو کہ کسی دستاویز کی شکل میں موجود ہی نہیں بس اصول اور ضابطوں کے مطابق نظام حکومت چلتا ہے عدالتیں مکمل طور پر آزاد، ملکہ برطانیہ کی حد تک بھی ملکی سیاست میں کوئی عملی مداخلت کا کوئی واقعہ کبھی پیش نہیں آیا اور دوسری جانب وزیراعظم اور وزرا نے کبھی قواعد و ضوابط سے ہٹ کر کوئی حکم جاری نہیں کیا اور نہ ہی کسی منظور نظر اور پسندیدہ شخصیت کو حکومتی عہدے پر تعینات کرنے کے احکام صادر کئے۔ پاکستان کی سیاست کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ 12 مارچ کو قومی اسمبلی کی سپیکر محترمہ فہمیدہ مرزا صاحبہ نے قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی کا اجلاس بلوا کر جو کارنامہ سرانجام دیا اس کے تحت محترمہ سپیکر صاحبہ اب ریٹائر ہو کر جس خصوصی پیکج کے تحت ایک عدد ڈرائیور، ایک نائب قاصد، ایک ٹیلی فون آپریٹر، ایک چوکیدار اور ایک معاون خصوصی کی سرکاری طور پر تاحیات حقدار ہوں گی اس پیکج کا اطلاق ماضی کے سابق سپیکر صاحبان پر بھی ہو گا یعنی ہر سال سرکاری خزانے سے لگ بھگ 40 کروڑ روپے کا خرچہ ہوا کرے گا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ مملکت پاکستان کی محترمہ سپیکر صاحبہ ماضی میں اپنے غیر ملکی دوروں پر ڈھائی کروڑ روپے خرچ کر چکی ہیں اس کے علاوہ امریکہ میں اپنے علاج پر 20 لاکھ روپے اور سعودی عرب میں عمرے کی سعادت حاصل کرنے پر 4 لاکھ روپے قومی خزانے سے لے کر خرچ کر چکی ہیں جبکہ ان کے شوہر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا شوگر مل کے مالک ہیں اور وہ بھی ماضی میں قومی خزانے سے بھاری قرضے لے کر معاف کروا چکے ہیں۔ یہ ہے پاکستان میں جمہوریت کی علمبردار اور اس عمارت (قومی اسمبلی) کی محافظ کہ جس کا رتبہ صدر مملکت اور وزیراعظم کے بعد نمبر 3 کے طور پر انتہائی قابل احترام تصور کیا جاتا ہے یعنی غریب ملک پاکستان کے عوامی نمائندوں کی جمہوری پہچان سپیکر صاحبہ کے ٹھاٹھ باٹھ اور شان و شوکت کی ایک جھلک، ویسے اس پانچ سالہ دور اقتدار کے دوران مبینہ طور پر 18 کھرب روپے قومی خزانے سے لوٹے گئے جو کہ سب نے مل کر لوٹے۔ ان میں اتحادی بھی برابر کے شامل ہیں۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف جو کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں وہ کوئی جاگیردار نہیں اور نہ ہی کوئی صنعتکار ہیں لیکن ان کے 8 اور 9 ماہ کے دور میں کئی ارب روپے صوابدیدی فنڈ میں خرچ ہوئے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق وزیراعظم روزانہ 20 کروڑ روپے خرچ کرتے رہے۔ لندن میں اس وقت ان کا انتہائی قیمتی فلیٹ بھی موجود ہے جو کہ ان کے صاحبزادے کے نام پر ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں صرف 1970ءکے عام انتخابات میں مڈل کلاس کے لوگ بڑی تعداد میں عوامی نمائندوں کی صورت میں ابھر کر سامنے آئے تھے لیکن بدقسمتی سے بعد میں ضیائی مارشل لاءکے گیارہ سالہ سیاہ دور میں ضیائی نرسریوں میں جس نئی سیاست کے پودے نے جنم لیا وہ پورے ملک کو تباہ و برباد کر گیا جس کا نتیجہ آج پوری قوم کے سامنے ہے۔ کرپشن، کرپٹ مافیا اور ڈرگ مافیا کے ساتھ قبضہ مافیا اور اغوا برائے تاوان کا نیا ناسور سیاسی شخصیات کی ملی بھگت سے پروان چڑھا ہے جو کہ ضیائی مارشل لاءکے دور میں مختلف شکلوں میں آہستہ آہستہ اپنی جڑیں مضبوط بناتا رہا ۔
 اب پاکستان میں اسمبلیوں میں 2 ہزار لوگوں کا جو کلب موروثی سیاست کو مافیا کی شکل میں سامنے لے کر آیا ہے یہ اب اقتدار مافیا بن چکا ہے۔ قانون اور آئین کی پاسداری اس مافیا کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں جو چیز ان کے ایجنڈے میں شامل ہے وہ صرف اور صرف لوٹ مار ہے۔ آنے والے انتخابات میں ان مافیاز سے اگر چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو پھر اب ان چار کروڑ ووٹروں سے امید کی جا سکتی ہے جو کہ نئے ووٹرز کے طور پر رجسٹر ہوئے ہیں۔ آئندہ کی پارلیمنٹ میں عوامی نمائندوں کو صرف اور صرف قانون سازی کے عمل تک ہی محدود رکھا جانا چاہئے۔ عوامی نمائندوں کو ترقیاتی فنڈز کی بیماری سے دور رکھنے کے لئے رولز آف گیم کے سلسلے میں عملی اقدامات ہونے ضروری ہیں۔ قوم کے ساتھ یہ کیسا مذاق ہے کہ صدر مملکت جو کہ خود سیاسی پارٹی کے سربراہ بھی ہیں اور گذشتہ پانچ سالہ دور حکومت میں ان ہی کی ذات کا سکہ چلتا رہا ہے اور وہ اب حکومت کے سبکدوش ہونے کے باوجود اپنے منظور نظر افراد جن میں ڈاکٹر عاصم اور رحمن ملک شامل ہیں ان کو مشیر کا درجہ دے کر ایوانِ صدر میں پناہ دینا چاہتے ہیں۔ عبوری اور نگران حکومتیں تشکیل ہی اس فارمولے کے تحت کی جانے کی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے کہ یہ کسی قسم کا احتساب کرنے کا سوچیں بھی نہ، حالانکہ ان عبوری حکومتوں کو مکمل توانائی فراہم کرتے ہوئے افواج پاکستان، عدلیہ اور بیوروکریسی اپنا قومی فریضہ ادا کرتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر کرپٹ حکمرانوں اور آئندہ کے لئے حکمران بننے والے سیاستدانوں کی بدعنوانیوں کا حساب لے کر قوم کا قرض اتار دیں۔ اسی میں پاکستان کی بقا ہے۔ صاف ستھرے اور پاک صاف ماضی کے رہنماﺅں کو انتخابی عمل کا حصہ بننے میں ہرممکن مدد فراہم کی جانی چاہئے جو کہ درحقیقت عوام ہی کی صفوں سے اٹھ کر اقتدار کے ایوانوں میں آ کر عوام کی ترجمانی کریں۔ یہ وہ لوگ نہ ہوں جو کہ پانچ سال تک حکمرانی کرکے تاحیات حکومتی مراعات کے تحت پروٹوکول اور بھاری تنخواہوں کے حقدار بن بیٹھیں۔ 11 مئی پاکستان میں انتخابات کا دن ٹھہرا۔ اب ہونا تو چاہئے کہ قوم اس قومی امتحان کی تیاری کرے اور یہ یاد رکھے کہ عوام کا نمائندہ وہ ہو جو کہ عوام ہی سے ہو اور عوام ہی میں رہتا ہو اس کا گھر بار اور کاروبار بھی پاکستان ہی میں ہو۔ بیرون ملک اس کی جائیداد اور بنک بیلنس نہ ہوں۔ امین، صادق اور محب وطن پاکستانی ہونے کی تمام خوبوں کی منہ بولتی تصویر ہو نہ کہ قومی خزانہ لوٹنے والا بددیانت "VIP" ہو۔
”وطن سے الفت ہے جرم اپنا یہ جرم تازندگی کریں گے
اک جو خطا ہم سے ہوئی کل یہ خطا سبھی لوگ کریں گے“

epaper

ای پیپر-دی نیشن