صَلّو عَلیٰ حَبیبہ
اللہ وحدہ‘ لاشریک کی ربوبیت کے جس احساس سے قلب و جاں پہ خوف کے بادل کعبة اللہ میں قیام کے دوران چھائے رہے دانستہ و نادانستہ صغیرہ و کبیرہ تمام تقصیریں شرمندہ شرمندہ نم نم کرتی رہیں تاہم مدینہ کی گلیوں میں پہنچتے ہی ہم اک گونہ قرار میں آنے لگے۔ میں ایک ادنیٰ عاشق نبی، ایک غلام، ادنیٰ غلام، نبی کریم کے قدموں میں پہنچ گئی۔ آج ہی تو مجھے اپنی تقدیر پر رشک آ رہا ہے۔ آج ہی تو میں رب العزت کے لکھے احسان پر نازاں ہو رہی تھی کہ میری ناتواں ہستی اور حقیر و عاجز ہونے کے باوجود رسول کریم کی چوکھٹ پہ جبیں نیاز کئے ہوئے تھی --- ایسے کہ جیسے بھٹکی زندگی کو منزل مل گئی، ایک بیقرار کو قرار آ گیا کہ جسے آنکھیں دیکھنا چاہتی تھی وہ نظارہ مل گیا۔ تمام جہانوں کی رحمت مشرق و مغرب کا محبوب، یہاں --- یہیں اسی خطہ ارضی کے احاطہ میں اُمتی اُمتی پکارتا رہا ہے --- آج وہ اپنی نسبتِ نبی کے صدقے میری آنکھوں میں سما گیا ہے۔ وہ مولائے کُل میرے حوصلے بڑھا رہا ہے۔ ہادی¿ برحق کا دامن تھام لینے والوں کو وہی تو ہے جو حوصلہ و ہمت عطا فرماتا ہے۔ دنیا کے ستائے، دکھیارے، سچے عاشق رسول اسی مقام احمد ریاض الجنة میں رسول اکرم کی طرف سے بلائے جاتے ہیں۔ میں تو مریضِ عشقِ رسول ہوں۔ پورے جہاں کی یادوں، فریادوں میں گم اس بھیڑ میں مَیں عشق نبی کی ماری، دیوانی اپنی فریادیں بھول گئی اور پھر یوں ہُوا کہ اس عاشق رسول کی آنکھوں میں نظارہ¿ روضہ رسول رُک گیا۔ یہ دنیا مجھے پوچھتی ہے کہ تیری آنکھیں پتھرا کیوں گئیں مگر کیا معلوم دنیا دار کو کہ آقا کے عاشقوں کی اس ادنیٰ عاشق کی پلکوں نے جھپکنا چھوڑ دیا کہ محبوبِ خدا کے روضے کا نظارہ جن آنکھوں میں ٹھہرتا جاتا ہے پھر وہ آنکھیں اور ان آنکھوں کی پلکیں جھکنا اور جھپکنا بھول جاتی ہیں۔ محبوب کے سامنے آ کر ہجر میں کٹی زندگی کا حال آنکھوں میں جھڑی لگا دیتا ہے۔ ریاض الجنة میں پڑھی گئی نماز سے اطمینانِ قلب نصیب ہوتا ہے۔ گنبد خضراءکے سائے میں نشست لگانا راحتِ جاں دیتا ہے۔ روضہ رسول کی جالی کو نظروں کے بوسے دینا قرارِ کمال دیتا ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ کی خدمت میں سلام عرض کرنا تازگی ایمان دیتا ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے حجرے سے اٹھنے والی خوشبوﺅں کے اس احساس نے مجھے مسحور کئے رکھا۔ آج یہ کیسی مبارک گھڑی آئی کہ دائی حلیمہ‘ فاطمہ الزہرہؓ، امام حسنؓ، عقیل بن طالبؓ، حضور پُرنور کی صاحبزادیوں و شہزادوں کو جنت البقیع کے احاطے میں میرا سلام مجھے خاندان رسول پر فدا کئے ہوئے ہے۔ حضرت عثمان غنیؓ، فاطمہ بنت اسدؓ، عبدالرحمن بن عوفؓ، سعد بن وقاصؓ، عبداللہ بن مسعودؓ، اسد بن ذرارہؓ، سعد بن وقاصؓ، عبداللہ بن مسعودؓ، امام نافعؒ، امام مالکؒ کے علاوہ دس ہزار اولیائے کرام کی آرام گاہ جنت البقیع میں میری حاضری و سلام کو بقیع کی فضیلت و تقدیس بام عروج بخش رہی ہے۔ میں فقط اپنا نام عاشقانِ رسول میں لکھانا چاہتی ہوں۔ اویس قرنیؓ کی قسمت پہ رشک کرتی ہوں۔ میں دردِ دنیا، اذیتِ سماج کی شکایت نہیں کرتی، میں تو اپنا حالِ دل سُنانا چاہتی ہوں۔ میرا طریق تو ہر اس راستے کو چومنا، ہر اس گلی میں گھومنا، ہر اس دیوار کو چھونا ہے جہاں میرے آقا کے وجود کا کچھ لمس بھی محسوس ہو --- میں اس خاک پاک کی تلاش میں ہوں جسے میرے آقا کے قدم چُھو کر گزرے تھے۔ میں ان ہَواوں کو قلب و جاں میں سینچنا چاہتی ہوں جو کالی کملی والے کے شہر مدینہ کو معطر کرتی رہتی ہیں۔ میں ان فضاﺅں کو اپنی سانسوں میں تحلیل کرنا چاہتی ہوں جو زلفوں والے کے دیارِ مدینہ طیبہ کو زندگی کی رونق بخشے ہوئے ہے۔
مسجد قبا، مسجد احزاب اور جبل اُحد پر بھی وہ بنیادی مقدس مقامات تھے جہاں میں اپنی حسرتِ قلب و جاں پوری کرتی رہتی ہوں۔ مسجد قبا کا آسمان میرا حسین سایہ رہا ہے۔ مسجد قبا مسلمانوں کی سب سے پہلی مسجد ہے۔ اس مسجد کی فضیلت یہ ہے کہ اس کی بنیاد میرے آقا نامدار محمد مصطفی نے خود اپنے دستِ مبارک سے رکھی۔ اس پیرائے میں مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے بعد مسجد قبا کو دنیا کی تمام مسجدوں میں افضل مقام حاصل ہے۔ یہ وہ عظیم مسجد ہے جہاں شاہ مدینہ اکثر تشریف رکھتے، نماز ادا کرتے اور صحابہ کرامؓ کے ہمراہ اس مسجد عظیم میں بیٹھ کر لوگوں کیلئے دینی معاملات کی وضاحت فرماتے۔ حضور کا ارشاد ہے کہ مسجد قبا میں دو رکعت نماز کا ثواب عمرہ کعبہ کے مترادف ہے۔ (سبحان اللہ) ! حال ہی میں سعودی حکومت نے مسجد کو عالیشان انداز میں ازسرنو تعمیر کیا ہے۔ دیواروں اور فرش پر سنگ مرمر کی خوبصورت آرائش کی ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہ مسجد ہے جس کے ساتھ ہجرت مدینہ کا عظیم واقعہ وابستہ ہے۔ مسجد قبا پہ حضور کی اونٹنی بیٹھی تھی۔ (صلو علیٰ حبیبہ وآلہ وسلم) ۔ مدینہ طیبہ کے جبل اُحد شہدائے اُحد کے مزاروں کی زیارت نہایت دلگداز ثابت ہوئی۔ حضرت حمزہؓ اور غزوہ¿ اُحد کے 70 دیگر شہداءکے مزارات کا منظر دیکھ کر دیر تک رقت طاری رہی۔ حضور کے دندان مبارک کا شہید ہونا۔ اُحد کی پہاڑی کا پھٹنا، یہ تمام مقامات اہم واقعات کی نشاندہی کر ر ہے ہیں۔ سب منظر آج بھی تازہ معلوم ہو رہے ہیں۔ جحش میرے آقا کے جانثاروں میں عبداللہ بن حجشؓ، مصعب بن عمیرؓ کے مزارات بھی یہیں ہیںاور وہ مقام عظیم بھی جہاں شاہ مدینہ کی مرہم پٹی کی گئی تھی (صلو علیٰ حبیبہ وآلہ وسلم) ۔ آپ جس مقام پر زخمی ہوئے وہاں ترکوں نے علامتی عمارت بنا دی تھی اب اس کے آثار بدقسمتی سے کھنڈر کی صورت میں ملتے ہیں۔ زخمی ہونے اور کفار کے لشکر کا پلڑہ پلٹنے کے پیش نظر حضور کو جبل اُحد کی بالکل جڑ میں منتقل کر دیا گیا تھا اور وہیں آپ کی مرہم پٹی کی گئی تھی۔ اس جگہ کو ”قبہ ثنایا“ بھی کہتے ہیں۔ یہ جبل اُحد کے اندر چھوٹی دیواروں کا مختصر سا احاطہ ہے جس کے سامنے غار ہے۔ بتایا گیا ہے کہ نبی کریم نے زخموں کی صفائی کے بعد یہیں آرام فرمایا تھا “ (صلو علیٰ حبیبہ وآلہ وسلم) ۔
مسجد نبوی میں داخلے کے کئی خوبصورت دروازے ہیں۔ باب جبرائیل، باب الرحمة اور باب صدیق، سب راستے روضہ رسول و گنبد خضراءکی طرف جاتے ہیں (صلو علیٰ حبیبہ وآلہ وسلم) خصوصاً باب جبرائیل سے متصل گنبد خضراءکے نیچے لگی کھڑکی کی جالی سے آقائے دوجہاں کے روضہ مبارک کی ایک براہ راست جھلک بھی دکھائی دیتی ہے (صلو علیٰ حبیبہ وآلہ وسلم) جسے میں نے چشم خدا کے ہر زاویے سے دیکھنے کی سعی کی، اشکبار ہوئی --- یا رسول اللہ صلوٰة و سلام کی دھیمی دھیمی صدائیں بلند کیں۔ امید ہے کہ وہ مشرق و مغرب کا محبوب سُنے گا۔ دل کی کوک وہ قریب ہو کر سُنے گا۔ مریضِ عشقِِ رسول کی دوا وہ کرتا ہے۔ جس کے چہرے پر کمال نور میرا محبوب، مجھے اپنی قربت میں لے گا (صلو علیٰ حبیبہ وآلہ وسلم) ۔ ایک دن وہ مجھے اپنی شفاعت دے گا، حُبِ نبی کی مجھے بھی بھیک ملے گی (صلو علیٰ حبیبہ وآلہ وسلم) ۔ دنیا میرے بخت پہ نازاں ہے کہ ہرسُو میری حاضری روضہ رسول کی بات ہو رہی ہے --- تم میری حاضری روضہ رسول کی بات کرتے ہو --- میں روضہ رسول کی بات تو کیا، میں دیدارِ رسول کی بات کرتی ہوں (صلو علیٰ حبیبہ وآلہ وسلم) ۔ یا اللہ یہ دل دیدار رسول، چاہ رسول کا سوالی ہے --- یہ سادگی¿ عشق کیا کیا ہے مانگے!