الےکشن کمےشن کی کارکردگی ۔اےک جائزہ
سابق جج فخر الدےن جی ابراہےم کی سربراہی مےں قائم ہونے والے الےکشن کمےشن سے ےہ امےد پےدا ہوئی تھی کہ آئندہ انتخابات صاف ستھرے طرےقے سے منعقد ہونگے اور اس کے نتےجے مےں اےمان دار اور محب وطن لوگوں کی حکومت قائم ہوسکے گی ۔لےکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ اےسے شواہد سامنے آئے ہےں جن سے ےہ امےد بر نظر نہےں آتی کےونکہ الےکشن کمےشن چند اہم معاملات مےں حالات سے سمجھوتہ کر چکا ہے ےا اپنی ذمہ دارےوں سے عہدہ برا ہونے کے بجائے ان کو دوسرے محکموں پر ڈال رہا ہے ۔ترقی پذےر ممالک مےں ہونے والے انتخابات مےں عام طورپر دھاندلی دوطرےقوں سے ہوتی اےک ووٹوں کی خرےد و فروخت اور دوسرے ان امےدواروں کو جو آئےن مےں دی ہوئی شرائط پر پورے نہےں اترتے ، ان کی نااہلی سے پہلو تہی ہے ۔الےکشن کمےشن کی طرف سے انتخابات مےں پےسے کے استعمال کی روک تھام کے لیے اقدامات غےر موثر ثابت ہوئے ہےں ۔اس ضمن مےں چند حقائق درج ذےل ہےں
اول :پاکستان پےپلز پارٹی کے تمام MNAکو ترقےاتی فنڈ اور صوابدےدی فنڈ کی مد مےں خطےر رقم دی گئی ۔سرکاری افسران کو مہنگے پلاٹوں کو کوڑےوں کے داموں مےں، فراہمی شامل ہے۔ علاوہ ازےں وزےر اعظم پروےز اشرف نے جب جون 2012مےں اپنا عہدہ سنبھالا اس وقت انکے صوابدےدی فنڈ مےں 22ارب روپے تھے اگلے 105دن مےں وزےر اعظم نے اوسطاً 209لاکھ روپے روزانہ بشمول چھٹےاں خرچ کیے اور پورے 22ارب جو کہ اگلے اےک سال مےں خرچ ہونے تھے ختم کردئےے اور پھر ستمبر کے مہےنے مےں خزانے سے مزےد 10ارب روپے کا تقاضا کردےا وزےر خزانہ نے ےہ 10ارب روپے فاٹا کے ترقےاتی فنڈسے 4ارب اور باقی قومی ترقےاتی پروگرام کی مد سے لے کر وزےر اعظم کے صوابدےدی فنڈکے لیے مہےا کیے اور اس طرح ملک کی تارےخ مےں پہلی مرتبہ وزےر اعظم کے صوابدےدی فنڈ مےں صرف 8ماہ کی قلےل مدت مےں37ارب روپے خرد برد ہوگئے ےعنی ان آٹھ ماہ مےں وزےر اعظم نے قوم کے 150ملےن ےومےہ کے حساب سے ضائع کر دیئے ۔پرےشانی کی بات ےہ ہے کہ وزارت خزانہ اور الےکشن کمےشن نے اس حکومتی لوٹ مار کامکمل ساتھ دےا اسی طرح الےکشن کمےشن کی طرف سے نئی تقررےوں اور فنڈ کو ووٹ خرےدنے کے لیے استعمال کرنے کی پابندی کوےکسر نظرانداز کےا گےا ۔ووٹوں کی خرےد و فروخت کے سلسلے مےں پےر پگارا اور چند اور سےاست دانوں نے جن کا تعلق مسلم لےگ (ن) سے ہے اےہ اعلان کےا کہ وہ اگلے انتخابات مےں پےسے کا استعمال کرےں گے ےہ الےکشن کمےشن کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی اور سےنہ زوری کے مترادف ہے۔ اسکے بےان کئی ہفتے گزر جانے کے باوجود الےکشن کمےشن کی طرف سے کوئی کاروائی دےکھنے مےں نہےں آئی ہے ۔
دوم:۔الےکشن کمےشن کی طرف سے دستور کی شق 62اور 63کی رو سے انتخابات مےں حصہ لینے کیلئے چند شرائط رکھی گئی ہےں امےد کی جارہی تھی کہ صرف وہی لوگ انتخابات لڑ سکےں گے جو ان شرائط پر پورا اترتے ہےں اور ٹےکس چوری کرنے والے اور جعلی ڈگرےاں رکھنے والے کوالےکشن مےں حصہ نہےںلےنے دےا جائیگا ۔اس سلسلے مےں ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ حکومت کے ساتھ ہونے والے معاہدے مےں 30دن کی میعاد رکھی گئی تھی جس پر تاحال عمل درآمد نہےں کےا گےا اور الےکشن کمےشن نے اس بارے مےں خاموشی اختےار کی ہوئی ہے ۔
مزےد براں حکومت اور حزب اختلاف کی تمام جماعتےں اس کو شش مےں ہےں کہ عبوری حکومت مےں ان کا تجوےز شدہ شخص سربراہ بنے تاکہ آئےن کے آرٹےکل 62اور 63.پر عمل درآمد نہ ہو سکے جبکہ سپرےم کورٹ کے ورکر پارٹی کےس کے فےصلے مےں الےکشن کمےشن کو واضح طورپر آئےن پر سختی سے عمل درآمد کروانے کے احکامات دئےے گئے ہےں اس ہی سلسلے مےں چند ماہ پہلے سپرےم کورٹ نے ان تمام اسمبلی کے اراکےن کو فارغ کرنے کا حکم صادر کےا تھا جن کی ڈگرےاں جعلی ثابت ہوئی ہےں مگر اس حکم پر تاحال عمل درآمد نہےں کےا ۔جعلی ڈگرےوں کے سلسلے مےں الےکشن کمےشن کی پسپائی کے بعد اس سے ٹےکس نادہندہ سےاسی لےڈرکے خلاف کاروائی کی امےد عبث ہے اس سلسلے مےں سپرےم کورٹ کے تازہ ترےن احکام کے مطابق الےکشن کمےشن کی طرف سے جاری کردہ نئے نامزدگی کے فارمز کو منظور کر لےا گےا ہے جس سے ےہ امےد پےد اہوئی ہے کہ اب الےکشن مےں حصہ لےنے والے تمام امےدوارں کو اہم معلومات فراہم کرنی پڑےں گی مگر ا س سلسلے مےں تمام سےاسی پارٹےوں نے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے اور اگر الےکشن کمےشن نے ذرابھی کمزوری دکھا ئی تو اس پر عمل درآمد ہونا مشکل ہوجائیگا ۔سےاسی پارٹےوں نے گٹھ جو ڑ کی اےک واضح مثال پی پی پی کی طرف سے ٹےکس کی مد مےں رعاےت بغےر NTNظاہر کیے نئی گاڑی کی خرےد و فروخت کی سہولت اور سمگلنگ شدہ گاڑےوں کی رجسٹرےشن کی اجازت کے سلسلے مےں پاکستان مسلم لےگ ن نے چپ سادھی ہوئی ہے اور در پردہ وہ حکومت سے ملے ہوئے ہےں نےز آئےن کی شق 62اور 63پر عمل درآمد سے پہلو تہی کے علاوہ الےکشن کمےشن نے Political Parties orderپر بھی عمل درآمد کروانے قانون کے مطابق اور اپنی پارٹےوں مےں ہر سےاسی پارٹی مےں الےکشن کروانے کے سلسلہ مےں کوئی کاروائی نظر نہےں آتی ۔
قارئےن!12 وےں ترمےم کے بعد ےہ امےد کی جاتی تھی کہ آئندہ ہونے والے انتخابات ملک مےں اےک نئے سےاسی دور کے آغاز کا پےش خےمہ ثابت ہونگے مگر الےکشن کمےشن کی اب تک کی کارکردگی حوصلہ افزا نہےں اور عام تاثر ےہ ہے کہ آئندہ انتخابات مےں بھی پہلے کی طرح صرف لالچی اور پےشہ ور سےاست دان منتخب ہو کر اسمبلےوں مےں پہنچ جائیں گے اور ملک مےں اےک محب وطن مخلص اور فعال قےادت کے آنے کا خواب شرمندہ تعبےر نہ ہو سکے گا اور عوام اس طرح مہنگائی اور لاقانونےت کے عذاب سے دوچار رہےں گے ۔