• news
  • image

انسان تھا غضب کا، وہ سخن گر تھا بلا کا


علم و عرفان کا ایک اور آفتاب غروب ہو گیا۔ شعر اور شاعری کی دنیا میں تاریکی اور بڑھ گئی۔ شعر و ادب کے لیجنڈ احمد ندیم قاسمی نے جس خالد احمد کو دور حاضر کا یکسر مختلف، سراسر منفرد اور مسلمہ طور پر بڑا شاعر قرار دیا تھا وہ منگل 19 مارچ کو پوری ادبی دنیا کو سوگوار چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی کے پاس چلے گئے ہیں۔ بقول حفیظ جالندھری
پیاروں کی موت نے میری دنیا اجاڑ دی
یاروں نے دور جا کر بسائی ہیں بستیاں
ایک زندہ دل اور زندہ تر انسان، دوستوں سے ٹوٹ کر محبت کرنے والا، اپنے احباب کے لئے نبی پاک کے طفیل دنیا بھر کی نعمتوں کی بھیک مانگنے والا، دشمنوں کے لئے بھی دل میں بغض کو جگہ نہ دینے والا، ایک سچا اور کھرا مسلمان اور محبوب خدا کے عشق کی دولت سے لبریز دل رکھنے والا ایک بہت ہی پیارا انسان خالد احمد اب ہمارے درمیان نہیں رہا۔
خالد احمد کا شعر و ادب میں کیا مقام و مرتبہ تھا اور وہ اپنے ہم عصروں میں کن کمالات کی وجہ سے ممتاز تھا اس کا فیصلہ تو ادبی نقاد ہی کر سکتے ہیں لیکن خالد احمد کے فن کے حوالے سے اگر میں فیض احمد فیض کے ایک شعر کا سہارا لوں تو کسی کو بھی میری بات جھٹلانے کا حوصلہ نہیں ہو سکتا
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے
رنگ و خوشبو اور حسن و خوبی¿ فن کے جتنے بھی پہلو ممکن ہو سکتے ہیں وہ سب خالد احمد کی شاعری میں موجود تھے۔ ان کا شمار ان شاعروں میں ہوتا تھا جو غزل اور نظم دونوں اصناف میں ایک جیسی مہارت رکھتے ۔ خالد احمد کی غزلیں، نعتیں اور نظمیں ان کے گہرے مطالعہ اور فنکارانہ مہارت کی شہادت دیتی ہیں۔
وہ شاعری میں PERFECTION کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھتے۔ وہ ہمہ وقت اسی جستجو میں نظر آتے کہ ایک مصرع میں مزید حسن کیسے پیدا کیا جا سکتا ہے، ایک شعر کو اور کیسے سنوارا اور نکھارا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری اپنے عہد میں سب سے ممتاز، مختلف اور خوبصورت نظر آتی ہے جو دل کشی اور جاذبیت خالد احمد کی شاعری میں موجود تھی وہی بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر دلکشی اور جاذبیت خالد احمد کی شخصیت میں تھی۔ خالد احمد نے اپنے سے ایک سینئر شاعر کی موت پر انتہائی پراثر مرثیہ تحریر کیا تھا جس کا درج ذیل شعر خود خالد کے فن اور شخصیت پر بھی صادق آتا ہے
انسان تھا غضب کا، وہ سخن گر تھا بلا کا
اک پل بھی وہ آواز نہ کمزور پڑی تھی
خالد احمد اپنی ذات کے حوالے سے کبھی کسی شاعر یا ادیب دوست کا شکوہ و شکایت نہیں کرتے تھے لیکن اپنے ہم عصر شعراءکے اس عمومی روئیے پر وہ ضرور احتجاج کرتے تھے کہ ہم لوگ اپنے سے جونیئر مگر بہتر لکھنے والوں کی صلاحیتوں کو سراہنے میں حد درجہ بخیلی سے کام لیتے ہیں۔ انہیں اپنی ادیب برادری سے یہ بھی شکوہ تھا کہ وہ اپنی ادبی رائے کا اظہار کرتے ہوئے منہ پر سچ بولنے کی جرات کیوں نہیں کرتے۔ اگر ہم تقریبات میں کسی شاعر یا ادیب کے بارے میں تعریف کرتے ہوئے زمین آسمان کے قلابے ملا دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے تو پھر نجی محفلوں میں اپنی اس رائے سے مکر کیوں جاتے ہیں۔ خالد احمد کا سختی کے ساتھ یہ موقف ہوتا تھا کہ ایک ادیب اور شاعر کو کسی بھی صورت میں دوغلے پن اور منافقت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ وہ کہتے تھے کہ جو شخص برملا، کھلم کھلا اور سب کے سامنے اپنے سچ کا اظہار نہیں کر سکتا اور اپنے ضمیر کی آواز بلند کرنے سے گھبراتا ہے اسے خود کو ادیب یا شاعر کہلانے کا حق حاصل نہیں۔ خالد احمد یہ بھی کہا کرتے تھے جو شخص دنیا کمانے کے لئے اپنے شعر و ادب کو سیڑھی کے طور پر استعمال کرتا ہے میں اسے ادیب و شاعر تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اگر دنیا آپ کے فن کے اندر آ جائے تو پھر وہ فن نہیں رہتا۔ جس طرح گھر کے آنگن اور بازار میں فرق رکھنا ضروری ہے اسی طرح شعر و ادب کی تخلیق اور قلم کو دولت کمانے کا ذریعہ بنانے میں حد فاصل قائم رکھنی چاہئے۔ خالد احمد اکثر کہا کرتے تھے کہ میں نے اپنے پاپی پیٹ کے لئے، اپنے بچوں کی روٹی اور تعلیمی اخراجات کے لئے بہت سارے کام کئے ہیں لیکن شاعری کرتے ہوئے اپنے پاپی پیٹ کو ہمیشہ الگ رکھا۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم
خالد کا فیصلہ ہمیشہ دل کی آزادی کے حق میں ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے جسم کو تو موت نے شکست دے دی ہے لیکن خالد احمد کے لکھے ہوئے الفاظ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ بقول خالد احمد سچائی کی اپنی توانائی ہوتی ہے اور سچ کبھی کمزور نہیں ہوتا۔ سچ کی توانائی میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو جاتا ہے، کمی نہیں آتی۔ دنیا کی ساری دولت مل کر بھی سچائی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ خالد احمد ایک سچا اور کھرا شاعر تھا اس کے سچ کو کبھی زوال نہیں آ سکتا۔ اس کے جانے کا دکھ تو ہم کبھی نہیں بھول سکتے لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ خالد احمد کی سچائی ہمارے درمیان ہمیشہ موجود رہے گی۔ پھول اگرچہ بکھر گیا ہے لیکن خوشبو کا سفر جاری رہے گا۔ خالد احمد کے فن کی خوشبو ہمیں اپنے اردگرد اس کے وجود کا احساس دلاتی رہے گی۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن