• news

الیکشن کمشن کا فیصلہ‘ ہزار خان کھوسو نگران وزیراعظم مقرر‘ جسٹس (ر) ریاض کیانی کا اختلافی نوٹ‘ ناصر اسلم کی حمایت

اسلام آباد (محمد نواز رضا + راجہ عابد پرویز + سپیشل رپورٹ) الیکشن کمشن کے ارکان نے کثرت رائے سے پیپلز پارٹی کے امیدوار جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو کو نگران وزیراعظم نامزد کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ الیکشن کمشن کے چار ارکان جن میں چیف الیکشن کمشنر بھی شامل ہیں نے جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو کو نگران وزیراعظم بنانے کے حق میں ووٹ دیا۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے رکن جسٹس (ر) ریاض کیانی نے جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد کو نگران وزیراعظم بنانے کے حق میں ووٹ دیا۔ جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو کو نگران وزیراعظم بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ الیکشن کمشن کے پنجاب سے رکن جسٹس (ر) ریاض کیانی نے میر ہزار خان کھوسو کی نامزدگی سے اختلاف کیا ہے، الیکشن کمشن کا اجلاس دوسرے روز بھی نگران وزیراعظم کی تقرری کیلئے ہوا سندھ سے تعلق رکھنے والے الیکشن کمشن کے رکن جسٹس (ر) روشن علی عیسانی جو گزشتہ روز موسم کی خرابی کی وجہ سے کراچی سے اسلام آباد نہیں پہنچ سکے تھے اتوار کو علی الصباح اسلام آباد پہنچ گئے۔ الیکشن کمشن کا اجلاس ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا جس میں نگران وزیراعظم کی نامزدگی کا فیصلہ کثرت رائے سے کیا گیا۔ الیکشن کمشن کے اجلاس کے اختتام کے بعد چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو کو نگران وزریاعظم نامزد کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمشن کے ارکان نے نگران وزیراعظم کے لئے چاروں ناموں پرغور و خوض کے بعد جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو کو نگران وزیراعظم نامزد کیا۔ یہ انتہائی اہم معاملہ تھا ہم نے اس پر مکمل غور کرکے فیصلہ کیا کیونکہ ہم نے جسے نگران وزیراعظم بنانا تھا اس نے ہمارے ساتھ مل کر شفاف الیکشن کا انعقاد یقینی بنانا ہے۔ جب چیف الیکشن کمشنر سے حکومتی ناموں پر مسلم لیگ (ن) کے اعتراضات اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی طرف سے الیکشن کمشن پر عدم اعتماد بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اس بارے میں کوئی جواب دینے سے گریز کیا۔ مسلم لیگ (ن) کا اعتراض تھا کہ وہ پہلے دور میں بے نظیر اور اب آصف علی زرداری کے قریب ہیں۔ قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد آئین کے آرٹیکل 224 اے کے تحت 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی جو تین روز تک چھ سے زائد اجلاسوں میں نگران وزیراعظم کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکی بالآخر نگران وزیراعظم کی نامزدگی کا فیصلہ الیکشن کمشن نے کیا۔ الیکشن کمشن نے ہزار خان کھوسو کے بطور نگران وزیراعظم کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق کثرت رائے سے نگران وزیراعظم کا تقرر کیا گیا۔ ہزار خان کھوسو کو بطور نگران وزیراعظم کی تقرری فوری نافذالعمل ہو گی۔ وہ آج بعد دوپہر ایک بجے حلف اٹھائیں گے۔ صدر زرداری ان سے حلف لینگے، ترجمان ایوان صدر کے مطابق تقریب کے لئے سیاسی جماعتوں کے قائدین کو دعوت نامے بھیجے ہیں۔ ثناءنیوز کے مطابق میر ہزار خان کھوسو کو وزیراعظم کا پروٹوکول دے دیا گیا ہے اس سلسلے میں سٹاف اور سکیورٹی کا عملہ بلوچستان ہاﺅس پہنچ گیا ہے الیکشن کمشن کی جانب سے ہزار خان کھوسو کو جس وقت نگران وزیراعظم مقرر کیا گیا وہ اس وقت بلوچستان ہاﺅس اسلام آباد میں موجود تھے، جہاں انہیں وزیراعظم کا پروٹوکول دیا گیا ہے۔ نگران وزیراعظم کے لئے جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو کا نام پیپلزپارٹی نے پیش کیا تھا ان کے پروفائل میں کہا گیا تھا کہ میر ہزار خان کھوسو بلوچستان ہائی کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس کی حیثیت سے وسیع انتظامی تجربہ رکھتے ہیں۔ انکا تعلق چھوٹے صوبے سے ہے۔ نگران وزیراعظم بننے سے بلوچستان اور چھوٹے صوبوں کو اچھا پیغام جائے گا۔ وہ صاف ستھری شخصیت کے مالک ہیں۔ جسٹس کھوسو پر مسلم لیگ (ن)کا اعتراض تھا کہ وہ پہلے بے نظیر بھٹو کے قریب تھے اور اب آصف زرداری کے۔ یہ بھی ذکر آیا کہ جسٹس کھوسو کو ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا تھا۔ انہوں نے جنرل ضیاءالحق کے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا۔ دوسرا اعتراض یہ تھا کہ انکی عمر زیادہ ہے۔ اس پر دیگر امیدواروں کی عمر کا چارٹ بھی پیش ہوا تھا خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ینگ مین صرف عشرت حسین ہیں جن کی عمر 74 سال ہے۔ ہزار کھوسو، ناصر اسلم زاہد اور پلیجو سے چھوٹے ہیں۔ پلیجو 87 برس، ناصر اسلم زاہد 84 برس اور کھوسو 82 برس کے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق نگراں وزیراعظم کے لئے پہلے روز ہی 5 بنیادی اصول طے کرلئے گئے تھے۔ (1) نگران وزیراعظم کا امیدوار شفاف کردار کا مالک ہو۔ (2) نگران وزیراعظم غیرجانبدار ہو۔ (3) انتظامی امور کا تجربہ رکھتا ہو۔ (4) کسی سیاسی جماعت سے وابستگی نہ ہو۔ (5) اچھی شہرت کا حامل اور دیانتدار ہو۔ پارلےمانی کمےٹی کے اجلاس کے پہلے روز مسلم لیگ (ن)کے نامزد امیدوار رسول بخش پلیجو کے نام پر غور ہوا۔ یہ نام مسلم لیگ (ن) نے پیش کیا۔ مسلم لیگ (ن)کا کہنا تھا کہ رسول بخش پلیجو سندھ کے معروف بزرگ قوم پرست رہنما ہیں۔ انہیں فنکشنل لیگ اور سندھ کے قوم پرستوں کی حمایت حاصل ہے۔ پی پی پی کا رسول بخش پلیجو کے نام پر الزام تھا کہ وہ سندھ کے پی پی پی مخالف اور سخت گیر قومیت پرست سیاستدان ہیں۔ وہ پی پی پی کے خلاف قوم پرستوں کے 9 جماعتی اتحاد کی قیادت کر رہے ہیں۔ پی پی پی کے خلاف انتخابی مہم چلا رہے ہیں جس روز مسلم لیگ (ن) نے انہیں امیدوار نامزد کیا دو گھنٹے بعد انہوں نے پریس کانفرنس کر دی کہ میں سندھ میں پی پی پی کو ختم کرنا چاہتا ہوں ملکی معیشت کو پی پی پی نے تباہ کیا۔ پی پی پی کے تابڑ توڑ اعتراضات کے بعد مسلم لیگ (ن) نے رسول بخش پلیجو کے نام پر اصرار نہیں کیا۔ دوسرا نام پی پی پی کے امیدوار اور سٹیٹ بینک کے سابق چیئرمین ڈاکٹر عشرت حسین کا تھا۔ پی پی پی نے ان کے پروفائل میں کہا کہ وہ غیرجانبدار ماہر معیشت ہیں اور انتظامی تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کے خلاف کوئی مالیاتی سکینڈل نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو ڈاکٹر عشرت حسین کے نام پر شدید اعتراضات تھے۔ ان پر الزام تھا کہ وہ فوجی آمر مشرف کے ساتھی رہے اور پاکستان کی معاشی بدحالی میں ان کی غلط پالیسیوں کا بڑا کردار ہے۔ ان پر تیسرا الزام تھا کہ وہ صدر زرداری کے بھی قریب ہیں صدر زرداری کے ایک ایمبیسیڈر ایٹ لارج خلیل احمد کے ساتھ ان کی قریبی رشتہ داری ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسین پر الزام تھا کہ وہ گرین کارڈ ہولڈر بھی ہیں۔ پی پی پی ڈاکٹر عشرت حسین کا دفاع کرتی رہی کہ رشتہ داریوں کی بنا پر کسی کو نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا مگر ڈاکٹر عشرت حسین کا نام بھی پہلے روز ہی ڈراپ ہو گیا۔ دوسرے روز جسٹس ناصر اسلم زاہد اور جسٹس میر ہزار خان کھوسو کے نام زیرغور آئے۔ جسٹس ناصر اسلم زاہد کے پروفائل میں مسلم لیگ (ن کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا۔ ناصر اسلم زاہد کی جمہوریت اور انسانی حقوق سے بہت واضح کمٹمنٹ ہے۔ وہ شفاف کردار کے حامل ہیں ۔ان پر پی پی پی کا اعتراض تھا کہ جسٹس نظام صدیقی جسٹس ناصر اسلم زاہد کے بہنوئی تھے۔ جسٹس نظام صدیقی کے قتل میں آصف علی زرداری کو ملوث کیا گیا حالانکہ وہ اس وقت جیل میں تھے۔ ان پر یہ الزام بھی تھا کہ بے نظیر بھٹو نے انہیں وفاقی لا سیکرٹری بنایا اور بے نظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کا حصہ بن گئے بے نظیر بھٹو کے خلاف توہین آمیز اور جھوٹی چارج شیٹ انہوں نے بطور لا سیکرٹری تیار کی تھی۔ پی پی پی کا چوتھا الزام یہ تھا کہ انہوں نے بھی ضیا دور میں پی سی او کا حلف اٹھایا تھا۔ مسلم لیگ (ن) دفاع کرتی رہی کہ انہوں نے مشرف دور میں پیشکش کے باوجود پی سی او کا حلف اٹھانے سے انکار کیا۔ مسلم لیگ (ن) ضیا دور کے پی سی او کو پی سی او نہیں مانتی۔ جسٹس (ر) ریاض کیانی نے کہا ہے کہ نگران وزیراعظم کیلئے جسٹس میر ہزار خاں کھوسو کے نام پر اختلاف کرکے آئینی اور جمہوری حق استعمال کیا۔ الیکشن کمشن کی جانب سے نگران وزیراعظم کے انتخاب کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پنجاب سے الیکشن کمشن کے رکن جسٹس (ر) ریاض کیانی نے کہا کہ اختلاف جمہوریت کا حسن ہے۔ انکا کہنا تھا کہ نگراں وزیراعظم کیلئے جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد موزوں امیدوار تھے آج بھی میری یہی رائے ہے۔ میر ہزار کھوسو کے نام پر الیکشن کمشن میں پہلے روز اکثریتی رائے نہیں تھی۔ انکے نام پر اکثریتی رائے آج سامنے آئی ہے۔ میر ہزار خان کھوسو پوری قوم کے وزیراعظم ہیں۔ ریاض کیانی نے اختلاف نوٹ میں کہا ہے کہ صدر سے ملاقات نہ کرکے ناصر اسلم زاہد نے اخلاقی جرا¿ت کا مظاہرہ کیا تھا۔ بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ ناصر اسلم زاہد نے صدر سے ملاقات نہیں کی تھی۔ ہزار خان کھوسو نے بطور گورنر صدر کے اسی طرح کے احکامات مانے۔ ہزار خان کھوسو نے ماضی میں کئی مواقع پر اخلاقی جرا¿ت کا مظاہرہ نہیں کیا۔
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی + خبرنگار) نامزد نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے کہا ہے کہ ملک میں آزادانہ، منصفانہ الیکشن ان کی اولین ترجیح ہے۔ نگران کابینہ 10 سے 12 وزراءپر مشتمل ہو گی، کابینہ میں سیاسی اور غیر سیاسی دونوں لوگوں کو لیا جا سکتا ہے مگر کسی ایسے شخص کو نہیں لیا جائے گا جو شفاف الیکشن میں رکاوٹ بنے اور جانبدار ہو۔ شفاف الیکشن کرانا، ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال نگران حکومت کے لئے چیلنجز ہیں۔ الیکشن کمشن کی طرف سے نامزدگی کے اعلان کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الیکشن کرانا الیکشن کمشن کا کام ہے حکومت انہیں ہر قسم کی معاونت فراہم کرے گی جو الیکشن کمشن مطالبہ کرکے گا انہیں مہیا کیا جائے گا۔ امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنا صوبائی حکومت کا کام ہے اس کے لئے صوبائی حکومتوں سے مل کر اس بات کو یقینی بناﺅنگا کہ انتخابات کے دوران امن و امان برقرار رہے۔ بلوچستان میں خراب صورتحال کے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے وزیراعلی سے ان کے اچھے تعلقات ہیں وہ اچھے آدمی ہیں ان سے بات کرونگا امید ہے سب ٹھیک ہو جائے گا۔ کراچی کی خراب صورتحال پر ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت سے اس حوالے سے بات کرکے ایسے اقدامات کریں گے جس سے امید ہے کہ حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ ملک کا مستقبل روشن ہے، ہم بڑی قوم ہیں، پاکستان بنا ہے اور یہ قائم رہے گا۔ ایم کیو ایم کی طرف سے کراچی کی نئی حد بندیوں پر اعتراض کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ابھی تک انہیں نئی حد بندیوں کے بارے میں معلومات نہیں۔ نگران وزیراعظم کے لئے ان کا نام تجویز کرنے سے قبل پیپلز پارٹی حکومت نے ان سے رابطہ نہیں کیا انہوں نے کہا کہ ان کا تعلق پیپلز پارٹی سے نہیں۔ الیکشن کمشن کے ایک ممبر کی طرف سے ان کی مخالفت کرنے کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ جمہوریت ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میرے لئے سب برابر ہیں۔ ضرورت پڑی تو صوبائی اور وفاقی سیکرٹریوں کو تبدیل کر دیا جائے گا۔ نگران وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری بوجھ ہے آزادانہ اور منصفانہ الیکشن اولین ترجیح ہے۔ امن و امان بہتر بنائیں گے۔ انتخابات وقت پر اور شفاف ہونگے۔ نگران کابینہ میں سیاستدانوں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں میر ہزار خان کھوسو نے کہا کہ ابھی شیروانی نہیں پہنی، ایک صحافی نے سوال کیا کہ بلوچستان کا احساس محرومی کیسے ختم کرینگے تو انہوں نے کہا کہ اسی لئے تو مجھے لایا گیا ہے۔ نگران حکومت کی مدت نہیں بڑھانے دونگا، مدت بڑھائی گئی اور بروقت الیکشن نہ ہوئے تو وزارت عظمیٰ چھوڑ کر گھر چلا جاﺅنگا۔ کابینہ کی تشکیل کیلئے کچھ وقت چاہئے۔ طالبان سے مذاکرات کے بارے ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، کرپٹ لوگوں کو عوام ووٹ نہ دیں تو ملک سے کرپشن ختم ہو جائے گی۔ میرے لئے سب برابر ہیں تمام سیاسی رہنماﺅں سے ملوں گا۔ امن و امان کی صورتحال کی بہتری کیلئے صوبوں سے مشاورت کرونگا۔ انشاءاللہ عوام کی توقعات پر پورا اترونگا۔ کسی سے زیادتی نہیں ہو گی۔ پرویز مشرف کے بارے میں فیصلے عدالتیں کرینگی۔ سیاسی گورنروں کا معاملہ حلف اٹھانے کے بعد دیکھوں گا۔ انہوں نے کہا کہ صدر کا عام انتخابات میں کوئی کردار نہیں انتخابات نگران وزیراعظم اور نگران وزراءاعلی کرائیں گے۔ میرے نام پر اعتراض کرنے والے بھی میرے بھائی ہیں۔ چیف جسٹس میرے بھائی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بیورو کریسی چلائی ہے اور پتہ ہے کہ اسے کیسے چلاتے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری سے ملاقات نہیں ہوئی تاہم ان سے ملاقات ہو گی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور میں اکٹھے رہے ہیں ان سے بھی ملاقات ہو گی۔ 

ای پیپر-دی نیشن