عمران کا نیا پاکستان اوپر اللہ نیچے بلّا
23 مارچ کو مینار پاکستان پر عمران خان کا جلسہ بہت بڑا تھا۔ مگر بڑے جلسے تو ہوتے رہتے ہیں۔ آج جنرل (ر) پرویز مشرف کا کراچی میں بڑا استقبال ہوا ہے۔ مگر عمران کے اس جلسے کا موازنہ 30 اکتوبر والے جلسے سے کرنا غیر سیاسی ہے۔ وہ بھی ایک بڑا جلسہ تھا۔ اس کے بعد ہی کئی سیاستدانوں نے اپنی پالیسیاں اور مرضیاں کچھ نہ کچھ بدلیں؟ بدلنے کی سیاست یعنی اداکاری کی۔ مجھے ایک نجی ٹی وی چینل پر برادرم زعیم قادری کی یہ بات بالکل اچھی نہ لگی کہ یہ جلسہ اس جلسے کا عشرِ عشیر بھی نہ تھا۔ ہم جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف ایک ساتھ تھے۔ میں تو اب بھی اپنے ساتھ ہوں۔ زعیم قادری جب بھی نوازشریف کے ساتھ تھا۔ اب بھی وہیں کھڑا ہے۔ وہ ورکر آدمی ہے۔ مگر سیاست میں بروکر بھی ورکر ہی بنتے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کو بات کرتے ہوئے احساس بھی نہیں ہوتا۔ اپنے پارٹی لیڈر کی یہ بات ٹھیک ہے اور دوسرے پارٹی لیڈر کی وہی بات بالکل غلط ہے۔ شکر ہے زعیم قادری نے 23 مارچ 2013 کے اس جلسے کا موازنہ 23 مارچ 1940ءکے ساتھ نہیں کیا۔ بہرحال عمران کی طرف سے 23 مارچ یوم پاکستان کا انتخاب ایک کریڈٹ ہے۔ عمران خان ایک انقلاب کا نعرہ لے کے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ یہ بھی سیاست ہے اور عمران خان بھی ایک روایتی سیاستدان بن گئے ہیں۔ اس کے باوجود وہ دوسرے سیاستدانوں سے مختلف ہیں۔ ایک ہوا چل پڑی ہے مگر عمران خان اس سے آندھی کا کام لینا چاہتا ہے۔ سونامی کے لئے اُسے بہت سمجھایا گیا مگر وہ ایک نیگٹو بات سے پازیٹو کام بھی لینا چاہتا ہے۔ سیلاب اور سیلاب بلا میں بھی فرق ہوتا ہے۔ اب تک سیلاب زدگان میں عام اور غریب لوگ ہی آئے ہیں۔ بپھرے ہوئے پانیوں نے کسی امیر کبیر وزیر شذیر اور بے ضمیر کے محلات کی چوکھٹ کو بھی نہیں چھوا ہے۔ دوسری قابل اعتراض بات ہے کہ عمران پاکستان کو نیا پاکستان بنانا چاہتا ہے۔ یہ نیا پاکستان کیا ہے۔ میں اس پر لکھ چکا ہوں۔ عمران کیوں نہیں کہتا کہ میں قائداعظم کا پاکستان بنانا چاہتا ہوں۔ کبھی کسی امریکی سیاستدان نے نیا امریکہ بنانے کا نعرہ نہیں لگایا۔ نیا انگلستان حتٰی کہ کسی نے نیا بھارت بنانے کی بات نہیں کی۔ نئے پاکستان کا نعرہ ذوالفقار علی بھٹو نے لگایا تھا۔ بختاور بھٹو زرداری نے ٹویٹر پر ایک پیغام دیا ہے۔ جس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ نیا پاکستان بنانے کا اعلان میرے نانا بھٹو صاحب نے کیا تھا۔ تو وہ یہ بھی بتائیں کہ کیا وہ نیا پاکستان بنانے میں کامیاب ہوئے۔ وہ اپنے کسی نعرے کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب نہ ہوئے۔ بختاور کے والد صدر زرداری نے پھر پیپلز پارٹی کے منشور میں روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگایا ہے۔ ہم صدر زرداری کو ایک کامیاب سیاستدان سمجھتے ہیں تو پھر یہ کیا سیاست ہے؟ مگر اصل سوال یہ ہے کہ نیا پاکستان سے بھٹو صاحب کی مراد کیا تھی نیا پاکستان سے مراد آدھا پاکستان تھا؟۔ آدھے پاکستان کو نیا پاکستان یعنی مغربی پاکستان کو پاکستان بنا کے نیا پاکستان بنانے کا اعلان کیا گیا۔ اُدھر تم اِدھر ہم۔ بڑے درد سے کہتا ہوں کہ مشرقی پاکستان الگ ہو جاتا مگر اس کا نام بنگلہ دیش نہ ہوتا۔ وہ مشرقی پاکستان رہتا۔ تو اس طرح دو پاکستان بھارت کے لئے دگنا خطرہ ہوتے۔ یہ کمپلیکس اب بھی بھارت کو ہے۔ مجھے یہ دکھ زیادہ ہے کہ بھٹو صاحب نے مغربی پاکستان کو پاکستان کا نام دے دیا۔ مغربی پاکستان ہوتا تو ہمیں پتہ ہوتا کہ کوئی مشرقی پاکستان بھی ہے۔ یہ بات میں نے برادرم شاہد رشید کے ساتھ تحریک تکمیل پاکستان کے سالانہ اجلاس میں کی تو صدر محفل منظور خان بہت بے تاب ہوئے۔ انہیں یہ بات پسند آئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ابھی ہم شمالی پاکستان اور وسطی پاکستان بھی بنائیں گے۔ ہم نیا پاکستان کے لفظ سے بہت بیزار ہیں۔ عمران سے گزارش ہے کہ آئندہ وہ یہ بات نہ کریں مگر انہوں نے ”سونامی“ کے حوالے سے کب ہماری بات مانی ہے۔ ایک بات اس بڑے جلسے میں شاہ محمود قریشی نے غیر ضروری طویل اور مصنوعی تقریر کرتے ہوئے کہی۔ ”اوپر اللہ نیچے بلّا“ یہ بات بہت چھوٹی ہے۔ اس سے تو بہتر یہ محاورہ ہے ”گھسُن نیہڑے کہ خدا نیہڑے“ خدا قریب ہے یا مُکا۔ اب سیاستدانوں نے مُک مُکا سے بھی مُکے بازی کا کام لینے کی کوشش کر رکھی ہے۔ میرے خیال میں ”بلّا“ انتخابی نشاں کے طور پر ٹھیک نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ابھی عمران کرکٹ کے میدان سے نکلا نہیں۔ وہ ایک بال سے تین وکٹیں لینے کی بات کرتا ہے۔ تو کیا عمران خان سیاست میں کرکٹ ڈپلومیسی کی واپسی کا اعلان کر رہے ہیں۔ اس کے لئے انٹی انڈیا ہونا ضروری ہے۔ جنرل ضیا کے بعد ناکام وزیر داخلہ رحمن ملک اور نااہل وزیراعظم گیلانی کی کوڑا کرکٹ ڈپلومیسی کی مثال بھی سامنے ہے۔ ہمارے ایک بڑی آن بان والے کالم نگار نے کپتان کا کالم نگار بننے کی کوشش کر رکھی ہے۔ اس طرح کپتان کا لفظ لیڈرکے مترادف بنانے کا جتن بھی کیا گیا۔ جس طرح بے نظیر بھٹو کے لئے بی بی کا لفظ عام ہوا۔ یہ بڑی عزت محبت کا لفظ ہے جو اچھی اور پیاری عورتوں کے لئے خاص طور پر بیٹیوں کے لئے کہا جاتا ہے۔ اس لئے کچھ الٹرا ماڈرن عورتیں بی بی کے لفظ سے چڑتی ہیں۔ یہ وہ عورتیں ہیں کہ جن کی عزت کی جائے تو وہ اسے اپنی بے عزتی سمجھتی ہیں۔ الطاف حسین کو الطاف بھائی کہا گیا۔ یہ بھی لیڈر کا مترادف نہ بن سکا کہ اب ایم کیو ایم کے ہر آدمی کو بھائی کہا جاتا ہے۔ کپتان کے کالم نگار نے تحریک انصاف میں باقاعدہ منتخب ہونے والے لوگوں پر تنقید کی اور تحریک انصاف کو عبدالعلیموں سے خطرہ قرار دیا۔ مگر 23 مارچ کے جلسے میں وہ سارے سٹیج پر عمران کے ساتھ موجود تھے۔ خاص طور پر عبدالعلیم خان تو عمران کے بالکل ساتھ کھڑے تھے۔ یہ جلسہ عبدالعلیم کی کوششوں سے کامیاب ہوا۔ جمشید امام سے فون پہ بات ہوئی تو وہ 22 جنوری کو مینار پاکستان میں موجود تھا۔ اس نے میرے کالم ”پاکستان میں تحریک پاکستان مگر تحریک انصاف“ کے حوالے سے بھی بات کی۔ یہ اچھی بات ہے کہ ایک غریب و غیور سچا پکا ورکر جمشید امام جیت گیا اور کھرب پتی عبدالعلیم خان بھی جیت گیا۔ جنون اور سرمایہ آجکل کی نئی پاکستانی سیاست کے لئے ضروری ہے؟