سیاسی پارٹیاں اپنے نشانات کے آئینے میں
مکرمی!پانچ سالہ دور گزر گیا جیسا گزرا سب جانتے ہیں۔نیا دور 11 مئی کے الیکشن کے بعد شروع ہونا ہے۔پرانوں کو پھر لانا ہے یا کسی اور کو آزمانا ہے۔انسانی فطرت تو تبدیلی چاہتی ہے۔اب یہ تبدیلی کیسی ہونی ہے اور اور کس طرح لائی جانی ہے اس کا فیصلہ عوام الیکشن کے دن اپنے ووٹوں سے کریں گے ۔ابھی اہم سیاسی پارٹیاں اپنے نشان کے ساتھ میدان میں آنے کی تیاریاں کر رہی ہیں ۔شیر جنگل سے شہر کی طرف چل پڑا ہے۔سائکل بھی سڑک پر رواں دواں ہے۔ترازو دکانوں سے سڑکوں اور دیواروں پر نمودار ہو چکی ہے۔بلا گیند کے بغیر ایکشن میں دکھائی دے رہا ہے۔طالبان دشمن تیر یا تلوار چلانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔مولانا (ڈی) کتاب کے ساتھ وعظ و نصیحت کرنے مینار پاکستان جانے کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں۔میزائل بر دار سیاست داں اور ترازو والے بھی دوڑ لگا رہے ہیں۔جن کا نام و نشان نہیں تھا وہ بھی کسی نشان کے ساتھ جلا وطنی ترک کر کے ہواﺅں میں اڑے چلے آرہے ہیں۔سب نے زور لگانا ہے۔اپنے کو منوانا ہے۔11 مئی بھی آجانا ہے۔عوام کیا سوچ رہے ہیں ۔کیا کرنا چاہتے ہیں۔یہ ابھی کچھ نہیں بتایا جاسکتا۔ملک کی تقدیر بدلنی ہے تو عوام کی سوچ بدلے گی ۔اس کے بر عکس اگر عوام حسب معمول خاموش تما شائی کا کردار ادا کرنا پسند کرنے کا تہیہ کئے رہے تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہو سکتا ہے۔اس طرح جو زور آور ہوگا وہی عوام پر مسلط ہوگا ۔یہ تو نشانِ انتخاب ہے لیکن نشان منزل کیا ہے یہ ان پارٹیوں سے عوام پوچھیں تو پتہ چل سکتا ہے ۔جن کی منزل نیو یارک اور پینٹاگون ہے وہ پاکستان میں اللہ کی حکومت کبھی قائم نہیں کر سکتے۔جن کی منزل مکہ اور مدینہ ہے وہی درست نظام لاسکتے ہیں ۔لیکن صرف نشان رکھ لینے سے کوئی یہ دعوہ نہیں کر سکتا کہ وہ پاکستان میں پاک اور صالح حکومت قائم کرے گا ۔اپنے نشان کے مطابق اپنے عمل کو تبدیل کرنے والے صحیح معنوں میں مخلص کہلا سکتے ہیں ۔(زاہد رضا خاںلاہور)