راولپنڈی کے انتخابی معرکے....(۲)
1985ءکے انتخابات میں ایک اور سیاسی گھرانہ ابھرا۔ مری کہوٹہ سے قومی اسمبلی کی نشست پر جنرل (ر) خاقان عباسی مسلم لیگ ن کے موجودہ چیئرمین راجہ ظفرالحق کو ہرا کر میدان سیاست میں نمودار ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے شاہد خاقان عباسی متعدد مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ شاہد خاقان عباسی 1985ءکی اسمبلی کے ضمنی الیکشن میں پہلی مرتبہ رکن قومی اسمبلی بنے۔ دوسری مرتبہ 1988ءمیں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا اور مسلم لیگ (ن) کے راجہ ظفرالحق 45ہزار 175 ووٹ اور پیپلز پارٹی کے راجہ محمد انور 42 ہزار 971 ووٹ کو شکست دے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ راجہ محمد انور پیپلز پارٹی کی خاتون رکن قومی اسمبلی مہرین انور راجہ کے والد تھے مری کہوٹہ سے تعلق تھا اور ملک کے نامور وکیل تھے۔ شاہد خاقان عباسی اور راجہ محمد انور کے درمیان دوسرا انتخابی معرکہ 1990ءمیں ہوا۔ اس مرتبہ شاہد خاقان عباسی مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو چکے تھے اور انہیں آئی جے آئی نے اپنا امیدوار بنایا تھا جبکہ ان کے مدمقابل پیپلز پارٹی کے راجہ محمد انور پیپلز پارٹی، تحریک استقلال کے انتخابی اتحاد پی ڈی اے کے امیدوار تھے۔ شاہد خاقان عباسی نے 80 ہزار 305 ووٹ لئے جبکہ راجہ انور 54 ہزار 11 ووٹ حاصل کر سکے۔ 1993ءمیں اس حلقہ انتخاب میں دلچسپ صورتحال دیکھنے میں آئی جب پیپلز پارٹی نے شاہد خاقان عباسی کے مقابلے میں اپنے بڈھے شیر کرنل حبیب خان کو اتارا جو کہ 1970ءکے انتخابات کے علاوہ 1977ءکے متنازع الیکشن میں بھی رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے تھے لیکن ان کا شاہد خاقان عباسی کے سامنے چراغ نہ جل سکا۔ شاہد عباسی نے 76 ہزار 596 ووٹ حاصل کئے جبکہ کرنل صاحب 45 ہزار 173 ووٹ حاصل کر سکے۔ 1997ءکے الیکشن میں پیپلز پارٹی نے شاہد خاقان عباسی کے مقابلے میں کوئی امیدوار نہیں دیا بلکہ یہاں مسلم لیگ چٹھہ کے بابر اعوان کی حمایت کی۔ شعلہ بیان بابر اعوان صرف 21 ہزار 768 ووٹ لے سکے جبکہ آزاد امیدوار جاوید اقبال ستی نے بھی 21 ہزار 386 ووٹ لئے جبکہ شاہد خاقان عباسی نے ان دونوں سے لگ بھگ تگنے ووٹ 65 ہزار 194 حاصل کرکے کامیابی حاصل کی۔
سپوت راولپنڈی چودھری نثار علی خان اور ان کے سیاسی حریفوں کے درمیان بھی دلچسپ مقابلے دیکھنے کو ملے۔ 1985، 1988، 1990، 1993، 1997، 2002اور 2008ءمسلسل سات انتخابات میں چودھری نثار نے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ کبھی وہ قومی و صوبائی اسمبلی دونوں نشستوں پر کامیاب ہوئے اور صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑی اور کبھی قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے منتخب ہوئے اور قومی اسمبلی کی ایک نشست چھوڑی۔ 1988ءمیں چودھری نثار علی 64 ہزار 186 ووٹ اور پیپلز پارٹی کے حبیب خان 57 ہزار 878 مقابلہ ہوا۔ 1990ءمیں پیپلز پارٹی نے چودھری نثار کے مقابلے میں اپنا امیدوار تبدیل کیا اور غلام سرور خان کو میدان میں اتارا۔ غلام سرور خان نے 63 ہزار 21 ووٹ حاصل کئے لیکن چودھری نثار اس ون ٹو ون مقابلے میں 78 ہزار 530 ووٹ حاصل کرکے فاتح بنے۔ 1993ءمیں یہ دونوں سیاسی شخصیات ایک مرتبہ پھر آمنے سامنے تھیں۔ اس مرتبہ جماعت اسلامی کے ڈاکٹر محمد کمال بھی مقابلے میں آئے۔ چودھری نثار 76 ہزار 288 ووٹ لے کر جیت گئے۔ غلام سرور خان 64 ہزار 800 اور ڈاکٹر کمال 6 ہزار 898 ووٹ لے سکے۔ 1997ءکے انتخابات میں چودھری نثار علی خان نے اپنے ووٹ بنک میں مزید تین ہزار ووٹوں کا اضافہ کیا اور 79 ہزار 258 ووٹ لے کر پیپلز پارٹی کے اس مرتبہ امیدوار سردار شعیب ممتاز خان 41 ہزار اور پی ٹی آئی کے چودھری غلام جیلانی 3 ہزار 588 ووٹ کو ہرا دیا۔ الیکشن 2002ءمیں چودھری نثار علی خان 73 ہزار 671 ووٹ لے کر جیتے۔ ان کے قریبی حریف مسلم لیگ (ق) کے راجہ محمد ناصر تھے۔ ان کے بھائی راجہ بشارت نہ ضلع کونسل راولپنڈی کے چیئرمین رہے تھے بلکہ رکن صوبائی اسمبلی بھی رہ چکے ہیں۔ راجہ ناصر خود بھی بلدیاتی سیاست میں بہت نمایاں حیثیت رکھتے ہیں مگر چودھری نثار کے مقابلے میں 56 ہزار 645 ووٹ لے سکے جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار محمد صغیر کھوکھر 11 ہزار 684 ووٹ تیسرے نمبر پر رہے۔ الیکشن 2008ءمیں بھی چودھری نثار علی خان نے پیپلز پارٹی کے سردار شعیب ممتاز خان 18 ہزار 388 اور مسلم لیگ (ق) کے امیدوار اپنے پرانے سیاسی حریف غلام سرور خان 49 ہزار 68 ووٹ کو بری طرح شکست دی اور 72 ہزار ووٹ حاصل کئے۔ چودھری نثار علی خان کو مسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی میں اپنا پارلیمانی لیڈر چنا اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے ان کے پانچ سال ان کو مسلمہ قومی لیڈر بنا گئے۔ آنے والے الیکشن میں ضلع راولپنڈی میں کانٹے دار مقابلے دیکھنے کو ملیں گے۔