ہم آپ کو داستانِ غم سُنا رہے ہیں
مِٹا کے خُودی کا نام ونشاں ہنس رہے ہیں
پکڑ کر اپنا ہی گریباں ہنس رہے ہیں
بیچ کر خزاں کے ہاتھوں پھولوں کی تقدیر
کس طرح گلشن کے نگہبان ہنس رہے ہیں
ہنستے ہیں دیکھ دیکھ کر شیطاں کو آدمی
آدمی کو دیکھ کر شیطاں ہنس رہے ہیں
چھُپے ہوئے ظلمت کدوں کی تاریکیوں میں
اندھیروں سے ڈرے کچھ صنوفشاں ہنس رہے ہیں
ہم آپ کو داستانِ غم سُنا رہے ہیں
اور آپ ہیں کہ میری جاں ہنس رہے ہیں
سُن کر بستیوں کی تباہی کے قصے باقر
دُور کھڑے سب بیاباں ہنس رہے ہیں
(باقر حسین شاہ بھاڈیوالہ تحصیل ڈسکہ سیالکوٹ)