ہم سانس سانس قرض کی صورت ادا ہوئے
حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں کرپشن ریکارڈ توڑ حد تک بڑھ چکی ہے۔ چیف جسٹس ہائی کورٹ نے بھی حکومتی اداروں میں کرپشن کی وجہ اس نااہلی کو قرار دیا ہے جو ہمار اندر رچ بس گئی ہے۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تیزی سے بڑھتی ہوئی کرپشن کے کیا اسباب ہیں -1 کیا ذاتی مفادات کرپشن کیلئے راہ ہموار کرتے ہیں -2 بڑھتی ہوئی مہنگائی تلے سسکتی انسانیت کرپشن کی راہوں پر نکل پڑتی ہے -3 یا پھر وہ طبقاتی تقسیم جس میں غریب محروم تر ہے اور طبقہ خاص زیادہ سے زیادہ حصول کے چکر میں کرپشن کی طرف مائل نظر آتا ہے۔
جب چھوٹی سطح سے لے کر بڑی سطح تک کرپشن معمول بن جائے اور دنیا میں پاکستان انتہائی کرپٹ ممالک میں شامل ہو جائے تو ہر باضمیر شخص کے ذہن میں یہ سوال گردش کرنے لگتے ہیں لیکن جب ضمیر کو ہی سلا دیا جائے تو اس امر کا احساس ہی ختم ہو جاتا ہے کہ معاشرہ کس سمت میں جا رہا ہے۔
دنیا کی نظر میں پاکستان ایک غریب ملک ہے اور یہاں سیاسی پسماندگی، غربت، حکمرانوں کا منفی کردار کرپشن کیلئے راستہ فراہم کرتا ہے لیکن ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے عوام کو غربت کے خاتمے کے ساتھ جان و مال اور عزت نفس کی زیادہ ضرورت ہے اس لئے باکردار سیاسی رہنما اور ایک بہتر نظام کی ضرورت ہے، جو معاشی نظام کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے کرپشن کا تدارک کر سکے۔ لیکن جب رہنماﺅں میں ہی گھمسان کا رن پڑنے لگے تو سیاسی استحکام کی دھول اڑنے لگتی ہے۔ قومی معیشت کے چیتھڑے اُڑ جاتے ہیں اور مالی، اقتصادی اور ترقیاتی منصوبے متاثر ہونے لگتے ہیں تب کرپشن کے دروازے کھلنے لگتے ہیں۔ قومی معیشت کا استحکام اور عدم استحکام حکمرانوں کے کردار سے وابستہ ہوتا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر جب واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان دو متضاد نظریات پر سرد جنگ شروع ہوئی جو ماسکو کی شکست اور واشنگٹن کے سودی مالی نظام کی فتح پر ختم ہوئی تو امریکہ اور اس کے زیر اثر ترقی یافتہ ممالک نے ترقی پذیر ملکوں کو قرض کی شکل میں مال مدد دی۔ اسکے بعد ورلڈ بنک، آئی ایم ایف اور اسی نوع کے مالیاتی اداروں نے ان ممالک کو قرض کی زنجیروں میں جکڑ کر ان کی معیشت کو مفلوج کر دیا۔ ترقی پذیر ممالک کے حکمران، بیورو کریٹ اور سیاستدان قرض کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ منظور شدہ قرض کی کوئی بھی قسط رک جانے پر ان کا اور ملکی معیشت کا دم گھنٹے لگتا ہے۔ قوموں کے عروج و زوال میں معیشت نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ بہتر معاشی پوزیشن کی بدولت ہی گنتی کے چند ممالک دوسرے تمام ملکوں پر حکومت اور سیاست کرتے نظر آتے ہیں اور جن ملکوں کو دوسرے ملک کنٹرول کرتے ہیں وہاں مفادات کی جنگ زور پکڑ جاتی ہے، قومی مفادات کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے اور ہر طبقہ کرپشن کی طرف راغب نظر آتا ہے۔ معاشی انحطاط اور کرپشن کی انتہا کسی بھی ملک کو انقلاب کی طرف لے جاتی ہے پاکستان کی بھی یہی صورتحال ہے۔ ہمارے ہاں معیشت کی بحالی کیلئے کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ کرپٹ افراد پر سخت ہاتھ ڈال کر صاف اور شفاف نظام کی کبھی بھی ضرورت محسوس نہ کی گئی، ہر آنے والے فوجی آمر نے قومی معیشت کی تباہی کا ذکر تو کیا لیکن تدارک کیلئے کوئی عملی اقدامات نظر نہیں آتے۔ ایوب خان نے حکومت سنبھالتے ہی خوفناک صورتحال سے آگاہ کر دیا۔ انہوں نے کہا ”ملک ایک سخت اقتصادی بحران کی لپیٹ میں آ گیا تھا، کرپشن انتہا پر تھی، زرمبادلہ کی محفوظ رقم گھٹتے گھٹتے 42 کروڑ روپے رہ گئی تھی، اگر یہی حالت رہتی تو ہمارا معاشی نظام چوپٹ ہو کر رہ جاتا۔“
اگر آج ہمیں کوئی دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں شمار کر رہا ہے تو ہمیں دوسروں کو گھورنے کی بجائے ان محرکات کا جائزہ لینا ہو گا کہ کرپشن کا وائرس ہر سطح تک کیوں پھیل گیا ہے؟ اگر ہم واقعی عزت مندانہ زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی کوتاہیوں کا خاتمہ کرتے ہوئے معاشی استحکام حاصل کرنا ہو گا، انہیں تو پھر وہی کچھ ہو گا جو اس وقت ہمارے ساتھ ہو رہا ہے بلکہ اس سے بھی بدتر حالات کے امکانات موجود ہیں ....
جب تک جئے بکھرتے رہے ٹوٹتے رہے
ہم سانس سانس قرض کی صورت ادا ہوئے