• news

تحریک پاکستان میں ممدوٹ خاندان کا کردار

میرے لئے یہ بات باعث فخر ہے کہ میرا تعلق ایک ایسے گھرانے سے ہے جس کا پاکستان کی تاریخ میں نام روشن مثال کے طور پر موجود ہے اور ہمیشہ رہے گا-ممدوٹ فیملی نے تشکیل پاکستان اور مسلم لیگ کی بنیاد میں اہم ستون کا کردار ادا کیا-نواب شاہنواز خان ممدوٹ اور نواب افتخار حسین ممدوٹ قائد اعظم محمد علی جناح کا دست وبازو تھے-یہی وجہ تھی کہ قائد اعظم محمد علی جناح پنجاب میں سب سے زیادہ اعتبار انہیں پر کرتے تھے اور جب بھی لاہور آتے ، ممدوٹ ولا میں قیام کرتے- محترمہ فاطمہ جناح جب بھی ان کے ہمراہ ہوتیں وہ بھی ممدوٹ ولا میں ہی ٹھہرا کرتیں-
1906میں سرشاہنواز خان ممدوٹ نے پنجاب میں مسلم لیگ کی صدارت سنبھالی اور مسلم لیگ کو مضبوط و فعال بنانے کے لئے انتھک کوششیں کیں-یہ انہی کی کاوشیں تھیں کہ قرار داد پاکستان لاہور میں ممدوٹ ولا کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر بنائی گئی- منٹوپارک کا جلسہ اور اس کی کامیابی بھی سرشاہنواز خان ممدوٹ کے سرجاتی ہے ان کے ساتھ ساتھ ان کے بیٹے نواب افتخار حسین ممدوٹ نے قائد اعظم محمد علی جناح کے دست راست کا کردار ادا کیا اور مسلم لیگ پنجاب کی صدارت ان کے بعد سنبھالی- 1947ءمیں پنجاب کے پہلے وزیراعلی بنے اور پہلے سال میں پورے پنجاب کی اپنے ذاتی فنڈز میں سے تعمیر وتشکیل سرانجام دی- قائد اعظم محمد علی جناح کو جہاں دشواری پیش آتی، نواب ممدوٹ اپنی تجوری کی چابیاں انہیں پیش کردیتے- ممدوٹ ولا مسلم لیگ کی تمام تر اہم ترین میٹنگز اور قرارداد پاکستان کے لئے ہمیشہ استعمال میں رہا- خاندانی وراثت کی وجہ سے بہت بڑا حق ہے کہ مسلم لیگ کے پرچم تلے پاکستان کی تعمیر و ترقی اور سیاست میں بھرپور اور مضبوط کردار ادا کیا جائے-ممدوٹ ولا کی ہراینٹ میں ہمارے بزرگوں کا خون پسینہ شامل ہے، اس کا ہر ذرہ بے حد مقدس ہے، ہم پاکستان اور مسلم لیگ کے معمار ہیں، ہم پر اپنے بزرگوں کی روحوں کا قرض ہے- ہم اپنی خاندانی روایات اور شرافت آگے لے کر چلنا چاہتے ہیں اور اس ملک کی سیاست میں وہ خوبصورت کردار ادا کرنا چاہتے ہیں جو آنے والی نسلوں کے لئے مثال بن جائے اور ہم پاکستان کو ایک امن پسند ، خود کفیل اورکامیاب ملک بنا سکیں-
ہمارے بزرگوں نے پاکستان کو حاصل کرنے کے لئے اپنا چین، سکون، آرام ، آسائشیں، جائیدادیں اور دولت ، الغرض ہر چیز قربان کردی-پاکستان جس مشکل دوراہے پر آج ہے، ایسے میں سچے اور دیانتدار سیاستدانوں کی ضرورت ہے -ہمارے لئے سیاست عبادت ہے اور اللہ کی مخلوق کی خدمت کرنا بحیثیت مسلمان بھی ہم پر فرض ہے- اسی فرض کو پورا کرنے کے لئے میں نے مسلم لیگ (ن) میں دسمبر2008 ءمیں شمولیت اختیار کی اور اپریل 2009 ءمیں مجھے وائس پریذیڈنٹ شعبہ خواتین پنجاب کا عہدہ ملا-خواتین کے حقوق اور ان کے مسائل کے لئے میں نے ہر لمحہ کوشش کی اور کئی فنی اداروں کو بھی قائم کیا تاکہ وہاں پاکستان کی بچیوں کو ٹریننگ دی جاسکے او وہ روزگار کما سکیں-خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کی آگاہی کے لئے کئی سیمینارز کروائے اور وقتاً فوقتاً خواتین کے لئے کئی انٹرنیشنل ٹریننگز کا بھی اہتمام کیا-مسلم لیگ (ن) کو فعال بنانے کے لئے ہر لمحہ کوشش کرتی رہی - وہ علاقہ جہاں میری رہائش ممدوٹ ولا واقع ہے وہاں NA122 اور PP147 میں خاص طور پر خواتین اور نوجوان طلبہ کی بہتری، ان کے حقوق ،ان کے تعلیمی اور طبی مسائل کے لئے ہر دن کوشاں رہی-جیسے ہی مریم نواز نے سیاست میں قدم رکھا ، ان کے ساتھ مل کر انہیں اپنا ویژن بتایا اور یوں ہم دونوں نے ایک ساتھ مسلم لیگ (ن) میں کام کرنا شروع کیا۔
2010ء میں سیاست اور بزنس کے ساتھ میں نے لاہور چیمبر آف کامرس بھی جوائن کیا اور وہاں مختلف ممالک کے سفیروں سے اکثر ملاقات رہنے لگی-یو ں پاکستان کا سافٹ امیج بھی بننے لگا کہ پاکستانی خواتین ملک کی ترقی و معاشرت میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں-ورلڈ بنک کے وفد سے کئی بار ملاقات ہوئی- پاکستان کے ٹریڈنگ اور انویسٹمنٹ کے شعبے کے بارے میں بے حد مفید معلومات حاصل ہوئیں-مگر موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے میں نے سیاست کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا-انقلاب لانے کا جذبہ اب اور بھی پختہ ہوگیا ہے- انقلاب میرے لئے یہی ہے کہ موجودہ مشکلات سے نکل کر ہر پریشان چہرہ مسکراتا ہوا نظر آئے- ایک دوسرے سے محبت بانٹی جائے، نفرتوں کو ختم کیا جائے- پرانی اقدار کو پھر سے اجاگر کیا جائے، اسلام کا تقدس اور صحیح مطلب لوگوں کو سمجھایا جاسکے تاکہ وہ ایک دوسرے کے لئے قربانی و ایثار کے جذبات پیدا کریں-پاکستان دنیا میں کامیاب ترین ترقی یافتہ اسلامی مملکت بن جائے-
جہاں سکون ہو اور مسکراتے چہرے ہوں- ہم اپنی تہذیب و تمدن کو فروغ دے سکیں-میرامشن ہے کہ میں پاکستان میں عدل و انصاف کو بہتر کرسکوں ، جس سے میری مراد ہمارا پولیس کا کردار ہے جو انسانیت سے نا آشنا ہے ، پولیس کے کردار کو فوراً بدلنے کی ضرورت ہے - اس کے لئے پڑھے لکھے اور حساس لوگوں کو یہ ذمہ داری دینے کی ضرورت ہے-کلاس سسٹم کو ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بہت غریب اور مڈل کلاس لوگ احساس محرومی کے شکار نہ ہوں-بجلی اور گیس کی مناسب فراہمی کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہر وقت کادبا¶ ختم ہوسکے-کاروبار اور انڈسٹری کو فروغ دیا جاسکے اور سب سے بڑھ کر ہر انسان کو اس کے حقوق کے تعلق باور کروایا جاسکے- زندگی تو محبت کرنے کے لئے بھی چھوٹی ہے ، یہ نفرت اور ڈپریشن میں ضائع نہیں ہونی چاہیے-

ای پیپر-دی نیشن