خالد احمد--- ادب کا ستارہ جو غروب ہو گیا
مکرمی! خالد احمد سے میری چند ملاقاتیں ہیں جنہیں میں فراموش نہیں کر سکتا۔ یہ تب کی بات ہے جب امجد اسلام امجد عطاءالحق قاسمی ایم اے او کالج میں پڑھاتے تھے۔ ان لوگوں نے کالج میں ایک مشاعرے کا انتظام کیا۔ سردیوں کا موسم تھا۔ باہر گراﺅنڈ میں مشاعرہ شروع تھا۔ سردی شدید تھی جب خالد احمد کی باری آئی تو اس وقت رات کے دو بج رہے تھے۔ خالد صاحب نے مائیک پکڑ کر سامعین کی بڑی تعداد کو دیکھ کر کہا۔
”کون کہتا ہے کہ مشاعرہ مر گیا ہے“ بھرے پنڈال میں سردی سے ٹھٹھرتے میں نے بلند آواز جملہ کہا ”مشاعرہ نہیں ہم مر گئے ہیں“ پنڈال میں قہقے لگے۔ مشاعرہ ختم ہوا تو خالد احمد سیدھا میرے پاس آئے اور کہا ”مزہ آ گیا“ خالد احمد سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ دوسری ملاقات میرے اپنے گھر کرشن نگر میں ہوئی جس میں عطاءالحق قاسمی امجد اسلام امجد ، اجمل نیازی اس وقت وہ ڈاکٹر نہیں تھے) حسن رضوی، جاوید اقبال کارٹونسٹ، شہزاد احمد، اے جی جوش، ہم سب نے مل کر کشمیریوں کا ایک روایتی ناشتہ کیا۔ میں نے خالد احمد کو انتہائی سادہ مخلص اور انسان دوست ادیب پایا۔ بعد میں مزید ملاقاتیں رہیں۔ خالد احمد بہت بڑے ادیب شاعر اور مخلص انسان تھے۔ لاکھوں لوگوں کی طرح میں بھی ان کا مداح تھا۔ایسے لوگ معاشرے میں کم ہو رہے ہیں۔ میں انکے بچوں میں سے کسی کو نہیں جانتا، دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کو صبر جمیل عطا کرے اور خالد احمد کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے۔
”ہر شے مسافر ہہر چیز راہی“
”کیا چاند تارے کیا مرغ و ماہی“
(ماجد علی شاہ، 302 اقبال ایونیو جوہر ٹاﺅن لاہور)