ماں
تو جا کے سو گئی مٹی کی اوڑھ کر چادر
سکھا گئی مری آنکھوں کو جاگنا شب بھر
میں اب جو روو¿ں تو آنسو زمین پر ٹپکیں
کوئی نہیں جو سمیٹے انہیں گوہر کہہ کر
کوئی نہیں جو تشفی کو ہاتھ سر پہ رکھے
کوئی نہیں جو دعاو¿ں کی بارشیں کر دے
میں روٹھ جاو¿ں کسی سے کوئی مناتا نہیں
میں ٹوٹ پھوٹ کے بکھروں کوئی اٹھاتا نہیں
میں بھوک پیاس کے صحرا میں جتنی دیر جلوں
کسی کو فکر نہیں ہے کہ میں کہاں پر ہوں
کوئی اتار کے لاتا نہیں صلیب سے اب
کوئی بلاتا نہیں زور سے، قریب سے اب
یہ رنج و غم کی تپش اب مجھے جلاتی ہے
میں اب جو روو¿ں تو تقدیر مسکراتی ہے
وہی ہے زعم وہی بال و پر ہوا ہے وہی
میں چلنا چاہوں تو قدموں میں راستہ ہے وہی
پر ایک حرفِ دعا کی کمی جو اب ہے مجھے
اس ایک حرفِ دعا کی بڑی طلب ہے مجھے
(صدیق ثانی)