ممبئی دھماکوں کے کردار سے ایک ملاقات
بھارت کے حکمران ہوں‘ سیاستدان ہوں‘ پارلیمنٹ ہو‘ ذرائع ابلاغ ہوں یا عدالتیں ہوں‘ پاکستان کے دل کی گہرائیوں میں مچلتا خبث باطن جھلکتا رہتا ہے۔ پاکستان کی سلامتی کے ادارے بالخصوص آئی ایس آئی تو ان کے دل و دماغ میں چبھے کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ 20 سال ہوتے ہیں بھارت کے ساحلی شہر ممبئی میں بم دھماکے ہوئے جس میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ حسب معمول بھارت کی جانب سے بلاتحقیق پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر الزام لگا دیا گیا۔ اسی ممبئی میں ہی جب چند سال قبل تاج ہوٹل کو نشانہ بنایا گیا تب بھی آئی ایس آئی ہی مورد الزام ٹھہری۔ یہ اتفاق ہی ہے کہ ممبئی دھماکوں کے ایک کردار سے میری سعودی عرب کے شہر بریدہ القسیم میں ملاقات ہوئی۔ ذاکر حسین نام کا ایک بھارتی نوجوان جس کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا میرا واقف بن گیا وہ جہاد کے لئے پرجوش گفتگو کیا کرتا اور سورة محمد سے ثابت کیا کرتا کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کی حکمرانی ہو گی اور اللہ کا دین نافذ ہو کر رہے گا۔ ایک دن میں نے خیال آرائی کی کیا بظاہر یہ ناممکن نظر نہیں آتا کہ ساری دنیا میں مسلمانوں کی حکمرانی ہو گی۔ سوائے امام مہدی یا حضرت عیسیٰ کے نزول کی صورت میں جس پر وہ ناراض ہو گیا اور میرے کمزور ایمان پر اظہار افسوس کیا۔ ایک دن بریدہ القسیم کے اسلامی سنٹر میں جو الشیخ عبدالعزیز التجویری کی سربراہی میں دین اسلام کی قابل قدر مگر خاموشی سے خدمات انجام دے رہا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں غیر مسلم اس کی پھیلائی گئی روشنی میں قبول اسلام کی سعادت حاصل کر چکے ہیں۔ جن میں سعودی عرب میں فوجی خدمات انجام دینے والے امریکی فوجی بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ بہرحال ذاکر حسین ایک دن گھبرایا ہوا اس سنٹر میں مجھ سے ملاقات کے لئے آیا اور اس نے بتایا کہ حیدرآباد دکن کے انسپکٹر جنرل پولیس کا ایک خط اس کے سعودی کفیل حسن الشعبان کے نام آیا ہے جس میں کہا گیا ہے ذاکر حسین ممبئی دھماکوں میں ملوث ہے اسے واپس انڈیا بھیج دیا جائے۔ ذاکر حسین نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ اس کا کفیل اسے پولیس کے حوالے نہ کر دے۔ میں نے پوچھا کہ اب وہ کیا کرے گا۔ ذاکر حسین نے کہا کہ آج یا کل یہاں سے نکل جاﺅں گا۔
جدہ میں ہمارے کچھ لوگ ہیں جو مجھے کسی دوسرے ملک نکال دیں گے۔ میرے اس استفسار پر کہ کیا وہ واقعی اس واقعہ میں ملوث تھا؟ جواب میں ذاکر حسین نے جو کہانی سنائی وہ یوں ہے کہ بھارتی نوجوانوں کی ایک تنظیم نے ملک میں مسلمان پر ہندوﺅں کے مسلسل ظلم و ستم کا بدلہ لینے کیلئے منصوبہ بنایا جو دراصل پیغام تھا کہ اگر نام نہاد سیکولر بھارت میں مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنائی جائے گی تو چین سے ہندو بھی نہیں رہیں گے۔ گویا یہ ایک ردعمل تھا۔ جس نے مسلمان نوجوانوں میں ہندو انتہا پسندوں کے مسلمان کش اقدامات کے بطن سے جنم لیا تھا۔ ذاکر حسین نے بتایا کہ ممبئی سمیت دہلی، کلکتہ، مدراس اور دیگر پندرہ بڑے شہروں میں دھماکوں کا پروگرام بنایا گیا تھا مگر ہمارے ایک ساتھی کی غلطی سے راز فاش ہو گیا اور ان شہروں میں کاروں میں رکھے گئے بم ناکارہ بنا دیئے گئے۔ تاہم ممبئی میں بم دھماکہ کے مقام کا پتہ نہ چل سکا۔ میں نے سوال کیا کہ آپ لوگوں نے یہ کیوں نہ سوچا کہ اس طرح کے دھماکوں میں مسلمان بھی مارے جا سکتے ہیں جن کا بدلہ مقصود ہے۔ ذاکر حسین نے کہا کہ اس کے پیش نظر نماز جمعہ کا وقت مقرر کیا گیا تھا تاکہ اس وقت مسلمان مساجد میں ہوں‘ لیکن بہت سے مسلمان جو جمعہ نہ پڑھتے ہوں وہ تو مساجد میں نہیں ہوتے اس سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ جو مسلمان جمعہ نہیں پڑھتا پھر وہ بھی ان کے ساتھ جائے۔ اس منصوبے کا انکشاف کیسے ہوا۔ میرے اس سوال کا جواب میں ذاکر حسین نے بتایا کہ ہمارے ایک ساتھی نے حیدرآباد دکن میں اپنے ایک دوست کو خط اس منصوبے سے متعلق لکھ کر کامیابی کیلئے دعا کرنے کو کہا۔ وہ خط دوست کی بجائے اس کے باپ کے ہاتھ لگ گیا جس نے اس خوف سے کہ اس کا بیٹا نہ ملوث کر لیا جائے۔ وہ خط پولیس کے حوالے کر دیا جس نے خط لکھنے والے ساتھی کو گرفتار کر کے سب کچھ اگلوا لیا۔ انہی دنوں سعودی عرب کیلئے آسامیاں نکلیں اور میں یہاں آ گیا۔ میں نے اسے پیشکش کی کہ اگر وہ سعودی عرب سے نکل کر پاکستان پہنچ جائے تو میں اس کی ہرممکن مدد کروں گا مگر 20 سال کا طویل عرصہ گزر گیا وہ کہاں ہے کس حال میں ہے سعودی عرب سے کیسے نکلا یا بھارتی پولیس کے ہتھے چڑھ گیا تادم تحریر اس نے رابطہ نہیں کیا۔
یہ ساری کہانی سنانے کا مقصد یہ ہے کہ اس میں آئی ایس آئی کے کسی کردار کا ذکر نہیں جو مجھے اتنا کچھ بتا سکتا تھا وہ اس منصوبے میں آئی ایس آئی یا پاکستانی دوستوں کا بھی حوالہ دے سکتا تھا۔ جب میں نے اسے پاکستان آنے کی پیشکش کی تب بھی وہ پاکستان میں دیگر رابطوں کا ذکر کر سکتا تھا۔ اس نے یہ تک بتا دیا کہ ان دھماکوں کیلئے موروتی کاریں سیٹھ داﺅد ابراہیم نے فراہم کیں تو وہ آئی ایس آئی یا کچھ پاکستانیوں کے ملوث ہونے یا معاونت کرنے کی بات بھی کر سکتا تھا۔ اس نے اداکار سنجے دت کا بھی ذکر نہیں کیا تھا جبکہ بھارتی سپریم کورٹ نے پاکستان کے خلاف خبث باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں آئی ایس آئی کو ملوث قرار دیا۔ بھارت سے دوستی کے خوابوں کی تعبیر شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ہو گی ایسے خواب دیکھنے والے بہتر ہے بیدار ہو جائیں۔