• news

سیاست زدہ‘ شکست خوردہ قومی ٹیم ۔۔ ۔چیف صاحب کیوں مطمئن ہیں؟

قومی کرکٹرز جنوبی افریقہ میں ناکام ہونے کے بعد وطن واپس پہنچ چکے ہیں اور ان دنوں لاہور میں ہونے والے ڈومیسٹک ٹونٹی ٹونٹی ٹورنامنٹ میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ آ¶ٹ آف فارم اور تنقید کا شکار کھلاڑی کھوئی ہوئی فارم حاصل کرنے اور ناراض شائقین کرکٹ اور ناقدین کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف خراب کارکردگی کے بعد قومی ٹیم کی اوور ہالنگ کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ قومی ون ڈے اور ٹیسٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق نے بھی معاملات میں فوری بہتری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے موجودہ صورتحال کو لمحہ فکریہ اور تشویشناک قراردیا ہے۔
انہوں نے ٹیم میں اختلافات کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے خراب کارکردگی کو ناکامی کی وجہ بتایا ہے۔ مصباح الحق نے یہ بھی کہا ہے کہ سب نے دیکھ لیا ہے کہ کس نے کیسا پرفارم کیا ہے۔ یہ ہیں خیالات قومی ٹیم کے ٹیسٹ اور ون ڈے ٹیم کے کپتان مصباح الحق کے جبکہ دوسری طرف پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ذکاءاشرف نے دورہ جنوبی افریقہ میں ٹیم کی پرفارمنس کو تسلی بخش قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم نے ون ڈے سیریز جیتنے کا موقع گنوایا اور ٹونٹی ٹونٹی میں ہماری کارکردگی شاندار رہی۔ بورڈ چیف یہ بھی کہتے ہیں کہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم دنیا کی نمبر ون ٹیم کے خلاف کھیل رہے تھے۔ یہ بیانات قومی کرکٹ کے ان دو اہم ترین افراد کے ہیں جن میں سے ایک ٹیم کی قیادت کرنا ہے تو دوسرا ملکی کرکٹ کے نظم و نسق کو چلانے کے اہم ترین عہدے پر خدمات انجام دے رہا ہے۔ ایک صورتحال کو پریشان کن تشویشناک اور لمحہ فکریہ قرار دے رہا ہے تو دوسرے کے نزدیک کار کردگی تسلی بخش ہے۔ یہ بیانات ہی منصوبہ بندی کا پول کھولنے کے لئے کافی ہیں۔ جب چیف اور کپتان مختلف راہوں کے مسافر ہوں‘ ایک اشاروں میں ٹیم میں تبدیلی کی بات کرے‘ دوسرا اشاروں میں کارکردگی کو تسلی بخش قرار دے‘ ایک صورتحال سے پریشان ہے تو دوسرا یہ سمجھتا ہے کہ بس سب اچھا ہے تو ان حالات میں بہتری کس طرح ممکن ہے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیم کی کارکردگی ایسی نہیں کہ اسکا ذکر اچھے الفاظ میں کیا جا سکے۔ ماسوائے چند ایک کھلاڑیوں کی انفرادی کارکردگی کے بجائے سب بری طرح ناکام رہے۔ کیا دنیا بھر میں ایسے ہی کام ہو رہا ہے۔ کیا دنیائے کرکٹ میں صرف ٹونٹی ٹونٹی میں اچھا کھیل کر ہی حکمرانی حاصل کی جا سکتی ہے؟ بورڈ چیف ایک سیاسی شخصیت ہیں وہ ایک کامیاب بزنس مین ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ سیاسی شوق بھی فرماتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں سب اچھا نظر آرہا ہے۔ وہ اپنی عینک اتار کر زمینی حقائق کو دیکھیں اور پھر کوئی بیان جاری کریں تو انہیں اندازہ ہو کہ ٹیم کی حالت کیا ہے اور 2015ءکے عالمی کپ کی تیاری کے لئے ٹیم میں کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ویسے تو بورڈ میں نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے تک ہر سطح پر تبدیلیوں کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ لیکن چونکہ اکثریت کی نظر میں سب اچھا ہے۔ تمام لوگ ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں لیکن جس کی وجہ سے سب کے عہدے قائم ہیں اور موجیں لگی ہوئی ہیں اس کے بارے میں شاید کسی کے پاس سوچنے کے لئے وقت نہیں....!
ذرا شاہد آفریدی پر بھی غور فرمائیں۔ موصوف کہتے ہیں کہ ان کا کرکٹ چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے کیونکہ فی الحال انہیں اپنا کوئی متبادل نظر نہیں آرہا۔ شاہد آفریدی اور ان سمیت کئی ایک ایسے کھلاڑی ہیں جن کی حقیقی معنوں میں ٹیم کو ضرورت نہیں ہے۔ لیکن جب بورڈ کے چیئرمین مہینوں رنز نہ کرنے والے اور وکٹیں حاصل نہ کرنے والے کھلاڑیوں کی کارکردگی سے مطمئن ہوں گے تو کھلاڑیوں کا رویہ بھی یہی ہو گا۔ حقیقت یہی ہے کہ ٹیم میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اس سوچ کی بھی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے جو ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ کو اعلیٰ معیار سمجھتی ہے۔ لوگ نجانے کیوں یہ بھول جاتے ہیں جب تک ٹیسٹ کرکٹ میں اچھی کارکردگی نہیں ہو گی ایک روزہ اور 20, 20 میں بھی مستقل مزاجی مشکل ہے۔ ماضی قریب اور موجودہ دور میں آسٹریلیا‘ انگلینڈ‘ بھارت اور جنوبی افریقہ اسکی واضح اور بڑی مثالیں ہیں۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ارباب اختیار ملکی کرکٹ کی بقا اور اسکے بہتر مستقبل کے لئے مصلحتوں سے آزاد ہو کر فیصلے کریں؟

ای پیپر-دی نیشن