• news

بلاول بھٹو زرداری اور مائی ہندہ

پیار سے اور ادب سے فریال تالپور کو سندھی بھائی مائی ہندہ کہتے ہیں۔ مائی ہندہ ایک تاریخی کردار ہے جو غزوہ احد کے حوالے سے مشہور ہوا تھا۔ وہ ابوسفیان کی اہلیہ تھیں جو رسول کریم کے مخالف لشکر کا سردار تھا۔ فتح مکہ کے بعد وہ ایمان لے آئی تھیں۔ حضرت ابوسفیانؓ اس سے پہلے ایمان لے آئے تھے۔ بلاول بھٹو زرداری کو تو آپ جانتے ہیں وہ شہید بے نظیر بھٹو کے بیٹے اور ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے ہیں۔ صدر زرداری خوش قسمت ہیں کہ وہ بلاول زرداری کے والد ہیں۔ اس کی والدہ کی شہادت کے بعد انہوں نے بلاول دونوں بیٹیوں بختاور اور آصفہ کی زرداری کی نسبت کے علاوہ ماں کی نسبت سے ایک ”پہچان“ دی اور خود ایوان صدر پہنچ گئے۔ فریال ”تالپور“ سے اپنے بچوں کی تفصیلی ملاقات کرائی۔ اس سے پہلے لوگوں نے ان کا نام بھی کم کم سنا تھا۔ صدر زرداری نے بلاول بھٹو زرداری کو چیئرمین اور اپنے آپ کو شریک چیئرمین بنایا۔ شریک چیئرمین انگریزی کے وائس چیئرمین کا ترجمہ ہے۔ اس موقعے پر چونکہ نائب کا لفظ نامناسب تھا۔ ویسے وائس بڑی شے ہوتا ہے شرط ہے کہ وہ اپنا قابل اعتبار ہو۔ مجھے تو اس سے صرف وائس آف امریکہ کا خیال آتا ہے۔ پنجاب میں ”شریک“ بہت خطرناک رشتہ داری ہوتی ہے۔ تمام مسائل ”شریکے“ سے پیدا ہوتے ہیں۔ رشتہ داری میں مقابلے کی فضا اسی سے بنتی ہے۔ اسے دوستی سمجھا جاتا ہے اور دشمنی کی بو بھی اسی سے آتی ہے۔ دوست نما دشمنی شاید اسی سے نکلی ہے؟
اب یکایک نجانے کیا ہوا ہے۔ ایسے ہی موقعوں پر صدر زرداری کی معروف صلاحیتیں تیزی سے کام آتی ہیں۔ بلاول کو چیئرمینی سے ہٹا دیا گیا اور انہیں پیپلز پارٹی کا سرپرست اعلیٰ بنا دیا گیا۔ اعلیٰ کا لفظ بہت خوبصورت ہے مگر اس سے بلاول کی تسلی نہ ہوئی۔ جس طرح مسلم لیگ (ن) کے کئی سیاستدان خادم پنجاب کو خادم اعلیٰ کہہ کر اپنی تسلی کر لیتے تھے۔ اس سے پہلے صدر زرداری نے شہید بے نظیر بھٹو کے بچوں کی سرپرست فریال تالپور کو بنایا ہوا تھا۔ وہ اس سے مطمئن نہ تھیں۔ انہیں بھی سرپرست اعلیٰ کا نام دیا جاتا؟ بلاول کو یہ دکھ ہے کہ سیاسی پارٹی میں سرپرست اعلیٰ کا تو کوئی منصب نہیں ہے۔ پارٹی کے معاملات میں اس کا کوئی کردار ہی نہیں ہے۔ ٹکٹیں بانٹنے والے بھی کوئی اور ہیں۔ بی بی کی زندگی میں ناہید خان مالک تھی۔ اب فریال مالک ہے۔ میرا خیال یہ بھی ہے کہ مرتضیٰ کے بعد شہید بھٹو پارٹی کی سربراہ غنویٰ بھٹو ہوتیں تو زیادہ بہتر ہوتا۔ فاطمہ بھٹو کو انہوں نے آگے آنے دیا۔ بے نظیر بھٹو اپنے بھائی کے بچوں کیلئے نرم گوشہ رکھتی تھی۔
ایک خبر کے مطابق صدر زرداری نے بلاول کو لندن میں فون کرکے کہا ہے کہ واپس آ جاﺅ ورنہ ہم الیکشن ہار جائیں گے۔ اخبارات میں باقاعدہ شائع ہوا ہے کہ بلاول نے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی ٹکٹوں کے لئے باقاعدہ پارلیمانی بورڈ بنایا جائے۔ فریال تالپور اور مظفر اویس ٹپی کی مداخلت کا خاتمہ کیا جائے۔ پارٹی پالیسیوں پر نظرثانی پارٹی چیئرمین کے عہدے کی بحالی۔ پارٹی آئین کے مطابق چیئرمین کے اختیارات کی منتقلی ضروری ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق لندن میں صدر زرداری کے خاص آدمی نے بلاول سے ملاقات کی۔ بلاول نے کہا کہ جب پارٹی میں میری کوئی حیثیت ہی نہیں تو میرے آنے یا نہ آنے سے کیا فرق پڑے گا۔ کمپین کو لیڈ میں کروں اور لیڈر کوئی اور ہو تو یہ مناسب نہیں ہے۔ سنا ہے برطانوی وزیراعظم کیمرون کو بھی بلاول کو منانے کے لئے فون کیا گیا ہے۔
بختاور اور آصفہ نے ٹوئٹر پر یہ پیغام دیا ہے کہ باپ بیٹے کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یوسف رضا گیلانی کے لئے بھی ٹوئٹر پر پیغام دئیے گئے تھے کہ ہمیں گیلانی پر فخر ہے۔ وہ قربانی دینے والے ساتھی ہیں اور وہ قربان ہو گئے۔ اس پر ان کا کوئی پیغام ٹوئٹر پر نہیں آیا۔ صدر زرداری آصفہ بھٹو زرداری کو آگے لانا چاہتے ہیں کہ وہ عمر میں چھوٹی ہے۔ اس سے کام لیا جا سکتا ہے اور اس کا نام استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بلاول نے یہ بھی کہا کہ شہید بی بی یعنی میری ماں کے لئے قربانی دینے والوں کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ میں انہی لوگوں سے واقف ہوں مگر کوشش ہو رہی ہے کہ پیپلز پارٹی میں کوئی بے نظیر بھٹو کا ساتھی نہ رہے۔ یہ ابتدا بہادر اور باوفا اور قابل ڈاکٹر بابر اعوان سے ہوئی تھی اور انتہا جہانگیر بدر جیسے آدمی پر جو بھٹو کا ساتھی اور جانثار تھا۔ شہید بی بی کے ساتھ بھی اس کی وابستگی مثالی تھی۔ اس کی جگہ لطیف کھوسہ کو لانا کون سی سیاسی چال ہے۔
یہ بات بھی ذہن میں رکھی جائے کہ یہ بھی صدر زرداری کی کوئی چال ہو سکتی ہے۔ ان سے زیادہ شاطر اور کامیاب سیاستدان اس وقت کوئی نہیں مگر بلاول کے حوالے سے یہ سازش بھی ہے تو اس کے اثرات منفی ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس سے پہلے حنا ربانی کھر اور بلاول کا سکینڈل چلانے کی کوشش کی گئی تھی۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس سے صدر زرداری یا حنا ربانی کھر کو کیا فائدہ ہوا مگر بلاول کو بھی کوئی نقصان نہیں ہوا۔ حنا ربانی کھر سابق صدر مشرف کے بہت قریب تھیں۔ مشرف کی قریبی خواتین نواز شریف کی طرف جا رہی ہیں۔ ماروی میمن اور سمیرا ملک کے بعد اب زبیدہ جلال بھی جو مشرف کی بہت چہیتی وزیر تھیں اور وہ انہیں وزیراعظم بنانا چاہتے تھے پھر چودھری شجاعت اور دوسرے لوگوں کے روکنے سے باز آئے اب نواز شریف نجانے انہیں کیا بنانا چاہتے ہیں۔ ماروی میمن کو خبردار رہنا چاہئے۔ مجھے اندیشہ بلکہ یقین ہے کہ حنا ربانی کھر کے ساتھ ٹکٹ کا وعدہ ہو تو وہ بھی نواز شریف سے آ ملیں گی۔ نواز شریف جنرل مشرف کے پاکستان آنے پر بالکل خاموش ہیں؟ لگتا ہے کہ زبیدہ جلال نے جنرل مشرف کے مشورے سے نواز شریف کو جائن کیا ہو گا۔ مشرف صاحب آج کل پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ سنا ہے کہ شہید بے نظیر بھٹو کی سیٹ سے فریال تالپور الیکشن لڑیں گی۔ یہ پارٹی کے اندر ”سیٹ ایڈجسٹمنٹ“ ہو گی۔ یہاں سے جیتنا آسان ہو گا کسی بھٹو فیملی کے آدمی نے کہا ہے کہ بلاول ہاﺅس کراچی میں جانے کے لئے فریال بی بی کی سفارش کراتی تھیں۔ آج وہ بلاول ہاﺅس لاہور کی بھی مالک ہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ کوئی ایسا آدمی بینظیر بھٹو کی سیٹ پر الیکشن لڑتا جو ایک سال کے بعد یہ سیٹ بلاول کے لئے خالی کر دیتا۔ کیا فریال تالپور یہ ”قربانی“ دے سکتی ہیں۔ بلاول نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم زرداری خاندان کی طرف سے نہیں بھٹو فیملی کی طرف سے چلائی جائے اور میں بینکر میں مورچہ بند ہو کے چھپ کے انتخابی مہم نہیں چلا سکتا۔ بلاول نے ایک بار اپنی پھوپھی فریال تالپور سے کہا تھا کہ آپ ابو کی طرح ڈرائنگ روم سیاست کی ماہر نہیں ہو سکتیں۔ کبھی نواب شاہ میں ہی کوئی جلسہ کرکے دکھا دو۔
پیپلز پارٹی کے کئی خوشامدی یہ بیان بازی کر رہے ہیں کہ سکیورٹی کی وجہ سے بلاول ملک سے چلے گئے۔ اس کے لئے ملک سے بھاگ جانے کی خبر زیادہ بامعنی ہو گی۔ اس طرح بلاول کی کردار کشی کی جا رہی ہے کہ وہ بزدل ہے۔ وہ بزدل نہیں ہے۔ اس کی ماں شہید ہو گئیں اس کا نانا پھانسی چڑھ گیا۔ جسے مرنا ہے تو وہ حفاظتی حصار میں بھی مر جائے گا۔ موت سے بڑی سکیورٹی نہیں ہے۔ مولا علیؓ نے فرمایا۔ موت میری محافظ ہے۔ وقت سے پہلے کوئی کسی کو نہیں مار سکتا۔ اس کی ماں کی سکیورٹی کم نہ تھی جبکہ ان کا چیف سکیورٹی افسر رحمان ملک عین موقعے پر بھاگ گیا تھا۔ اسے صدر زرداری نے پورے ملک کا چیف سکیورٹی افسر یعنی وزیر داخلہ بنا دیا۔ اب اسے ایوان صدر کا کوئی ایڈوائزر لگایا گیا ہے۔ اللہ خیر کرے؟ بلاول نے کراچی میں بی بی کے ٹرک کے آس پاس مرنے والوں کے لواحقین کے لئے نوکریاں دینے کی بات کی۔ اس حوالے سے ان کی تلخی قائم علی شاہ کے ساتھ اتنی بڑھی کہ نوبت ہاتھا پائی تک آ گئی مگر سندھ میں جیالے بغیر پیسے کے کوئی نوکری نہیں دیتے۔
برادرم فرحت اللہ بابر کی بیٹی معروف تجزیہ نگار ماریانہ بابر نے ایک انگریزی اخبار میں لکھا ہے کہ صدر زرداری ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو سے بڑا لیڈر ہے۔ وہ بڑا سیاستدان کہہ دیتی تو ہم سوچ میں پڑ جاتے بھٹو اور بی بی دونوں سیاست میں ہار گئے۔ زرداری کا صدر زرداری بننے کا فیصلہ انکے سیاستدان ہونے کا ثبوت ہے پھر انہوں نے جس طرح پانچ سال نکالے کوئی سیاستدان نہیں کر سکتا۔ بے نظیر بھٹو اور اور نواز شریف دو دفعہ بھی پانچ سال نہ نکال سکے اور اب نواز شریف تیسری باری کے لئے بھی امیدوار ہیں۔ نجانے اب وہ کتنے سال نکالیں گے۔ بھٹو بھی پھانسی چڑھ گئے آخری دنوں میں سیاستدانوں نے اسے ہرا دیا....ع
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
میں نے کہا تھا جو کوئے یار سے نہ نکلے اسے سوئے دار جانے کی توفیق نہیں ملتی۔ صدر زرداری نے کوئے یار اور ایوان صدر کی سرحدیں ایک کر دی ہیں۔ نواز شریف کہتے ہیں کہ میں وزیراعظم کا حلف صدر زرداری سے لے لوں گا۔ عمران کہتا ہے نہیں لوں گا۔ دونوں ٹھیک کہتے ہیں؟ بلاول بھٹو زرداری پنڈت نہرو کے نواسے راہول گاندھی کی طرح اعلان کر دے کہ وہ موروثی سیاست کو خیرباد کہتا ہے تو ایک نیا سیاسی زمانہ پاکستان میں شروع ہو گا اللہ بلاول کو یہ توفیق مبارک کرے۔

ای پیپر-دی نیشن