الیکشن کمشن نے اختیار دیدیا ‘ اپنی مرضی کی بیورو کریسی لائیں گے: نجم سیٹھی
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی + ایجنسیاں) نگران وزیراعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ الیکشن کمشن کے ضابطہ اخلاق پر مکمل عمل کرانا انتہائی مشکل ہے مگر ہم اس کیلئے سخت اقدامات ضرور کرینگے۔ دہشت گردی اور امن و امان عام انتخابات میں سب سے بڑا مسئلہ ہوگا۔ عام انتخابات میں دہشتگردی کا خطرہ ہے مگر پوری قوت سے اسے ناکام بنا دیا جائیگا۔ میری کسی سیاسی جماعت سے دوستی اور کسی سیاسی لیڈر سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں، نگران حکومت اور عام انتخابات کو آگے لیجانے کی کوشش کی گئی تو میں اپنا عہدہ چھوڑ دونگا۔ ایڈیٹروں، کالم نگاروں، اینکر پرنسز اور سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے نگران وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ میرا کام کوئی پالیسی بنانا یا کسی ترقیاتی منصوبے کو تبدیل یا نئے منصوبے شروع کرنا نہیں، بلکہ میرا کام صرف اور صرف شفاف انتخابات کرانا ہے اس کیلئے الیکشن کمشن اور سپریم کورٹ جو بھی حکم دینگے ان پر سب سے زیادہ عمل پنجاب میں کیا جائیگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ الیکشن کمشن کے انتخابی ضابطہ اخلاق پر عمل کرانا انتہائی مشکل کام ہے کیونکہ ہم کسی بھی صورت ووٹروں کو بسوں میں پولنگ سٹیشن تک لیجانے سمیت بہت سے کاموں سے روکنا چاہیں بھی تو نہیں روک سکتے کیونکہ اس کیلئے بہت زیادہ پولیس کی ضرورت ہے مگر اسکے باوجود ہم نے انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ جہاں تک ممکن ہوسکے اس پر سختی سے عمل ہونا چاہئے۔ کچھ لوگ مجھے آصف زرداری، نوازشریف اور کچھ لوگ مجھے اب عمران خان کے قریب سمجھتے ہیں جبکہ دوسری طرف جب نوازشریف اور بے نظیر بھٹو شہید کی ماضی میں حکومتیں ختم ہوتی رہیں تو دونوں کہتے تھے کہ میں نے انکے خلاف کوئی سازش کی ہے حالا نکہ میں نے آج تک کسی کیخلاف کوئی سازش نہیں کی بلکہ ہمیشہ قوم کو حقائق اور سچ بتایا ہے اور میں اب بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میری کسی سیاسی جماعت سے دوستی اور دشمنی نہیں۔ ماضی میں پاکستان میں سیاسی بنیادوں پر نگران حکومتیں قائم ہوتی رہیں مگر ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئین کے تحت غیر جانبدار نگران حکومتیں قائم ہوئی ہیں مجھ پر اپوزیشن اور حکومت دونوں نے مکمل اعتماد کیا میں نے کبھی نگران وزیراعلیٰ بننے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ انتظامیہ میں جہاں تک ضروری ہوا وہاں تبدیلیاں کی جائیں گی، نگران کابینہ کیلئے مشاورت جاری ہے جس میں 5 یا 6 لوگ شامل ہونگے۔ نجم سیٹھی نے کہا کہ اگر نگران وزیراعلیٰ پنجاب کا معاملہ الیکشن کمشن میں جاتا تو آج صوبے کا نگران وزیراعلیٰ میں نہ ہوتا۔ الیکشن کمشن کی ہدایات کے مطابق کام کرنا چاہتا ہوں۔ سب کو ساتھ لیکر چلنا چاہتا ہوں۔ اگر کوئی افسر غلط کام کررہا ہے تو آگاہ کیا جائے، کارروائی کرونگا۔ نگران وزیراعلیٰ نے آر پی اوز سمیت تمام افسروں کو تبدیل کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر الیکشن کمشن کو کسی نام پر اعتراض ہو تو مجھے بتائے، اس افسر کو تبدیل کردیا جائیگا۔ اگلے چند روز میں پنجاب بھر میں انتظامیہ میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ ہو گی۔ الیکشن کمشن نے انتظامیہ اور بیورو کریسی کے تبادلوں کا مکمل اختیار دے دیا ہے۔ اپنی مرضی کی بیورو کریسی لائیںگے۔ پنجاب بھر کے ریجنل پولیس افسروں، ڈی پی اوز، کمشنروں، ڈی سی اوز کے تبادلے کئے جائینگے۔ انہوں نے کہا کہ میری دوماہ کی نگران حکومت کا کام معمول کی حکومت چلانا نہیں بلکہ سب سے بڑے صوبے میں آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا ہے۔ عام انتخابات آگے لیجانے کی کوشش ہوئی تو میں اپنا عہدہ چھوڑ دونگا۔ اس وقت سب سے بڑا ایشو دہشت گردی کا ہے دہشت گردوں نے عام انتخابات نہ ہونے کی دھمکی دے رکھی ہے ہماری کوشش ہو گی کہ کم از کم دہشت گردی کی وارداتیں ہوں اور اپنی کوششوں میں 90 فیصد کامیاب ہوں، میری بطور نگران وزیراعلی تقرری میں امریکہ کا کوئی کردار ہے نہ ہی پاکستان میں امریکہ کے سفیر رچرڈ اولسن سے کبھی ون آن ون ملاقات ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت الیکشن کمشن کی حکومت ہے اس کا تقابل کسی اور حکومت سے نہیں کیا جا سکتا مجھے الیکشن کمشن نے انتظامیہ اور بیورو کریسی کے تبادلوں کا مکمل اختیار دے دیا ہے۔ آزادانہ انتخابات کے انعقاد کے لئے الیکشن کمشن سے رابطہ رکھیں گے ادھر ادھر نہیں دیکھیں گے چیف الیکشن کمشنر، چیف جسٹس اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے، دہشت گردی اور امن و امان عام انتخابات میں سب سے بڑا مسئلہ ہو گا، میری کسی سیاسی جماعت سے دوستی اور کسی سیاسی لیڈر سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں۔ میرا کام کوئی پالیسی بنانا یا کسی ترقیاتی منصوبے کو تبدیل یا نئے منصوبے شروع کرنا بلکہ میرا کام صرف اور صرف شفاف انتخابات کرانا ہے۔ ماضی میں پاکستان میں سیاسی بنیادوں پر نگران حکومتیں قائم ہوتی رہیں مگر ملکی تاریخ میں پہلی بار آئین کے تحت نگران حکومتیں قائم ہوئی ہیں۔ مجھ پر اپوزیشن اور حکومت دونوں نے مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے جن سیاسی رہنماﺅں سے ملاقاتیں کی ہیں کسی نے مجھ سے کسی انتظامی افسر کے خلاف شکایت نہیں کی میں نے کبھی نگران وزیراعلی بننے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ انتظامیہ میں جہاں ضروری ہوا وہاں تبدیلی کی جائے گی۔ نگران کابینہ کے لئے مشاورت جاری ہے۔ میں نے امریکی سفیر رچرڈ اولسن سے کبھی ون آن ون ملاقات نہیں کی تاہم لاہور میں امریکی قونصل جنرل سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں اس میں بھی میں اکیلا نہیں ہوتا۔ میاں نواز شریف غیر ملکی وفود سے ملاقاتوں کے دوران مجھے اپنی معاونت کے لئے بلا لیا کرتے تھے، صدر آصف علی زرداری سے زیادہ ملاقاتیں نہیں ہوئی، ان کو کبھی مشورہ نہیں دیا تاہم جس کسی کو مشورہ دینا ہوتا ہے وہ اپنے کالموں اور ٹی وی پروگرام کے ذریعے دیتا ہوں۔ میرے کالموں سے بے نظیر اور میاں نواز شریف ناراض ہو جاتے تھے تاہم بعد میں وہ اس بات کو نظرانداز کر دیتے، عمران خان پر تنقید کی تو وہ بھی ناراض ہو گئے تاہم ان سے دوستی ہے۔ الیکشن مہم کے دوران تمام سیاستدانوں کو مکمل سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ پاکستان کے پاس انسداد دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے کوئی فورس نہیں، دہشت گرد زیادہ تربیت یافتہ ہیں جبکہ ہماری پولیس اور فوج کو روایتی تربیت دی جاتی ہے۔ ہمارے پاس جتنے ایکوپمنٹ موجود ہیں انہیں سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لئے استعمال کیا جائے گا، ہمیں ملٹری انٹیلی جنس پر انحصار کرنا پڑے گا اس سلسلے میں فوج کے لوگوں سے ملاقات کرنا پڑے گی، حکومت پنجاب نے 100 سے زائد لوگوں کو پکڑا ہے انہیں شیڈول 4 کے تحت اندر رکھا ہے لیکن ان کی ضمانتیں ہو جائیں گی لہذا ان کو حفاظتی تحویل میں رکھنا پڑے گا۔