قومی ٹیم کا دورہ¿ جنوبی افریقہ مکمل ........کیا کھویا کیا پایا؟
چودھری محمد اشرف
پاکستان کرکٹ ٹیم کا دورہ جنوبی افریقہ 24 مارچ کو ختم ہو گیا۔ ٹیسٹ اور ون ڈے سیریز میں میزبان ٹیم نے ٹرافیاں اپنے نام کیں جبکہ ٹی ٹونٹی کے واحد میچ میں پاکستان کو کامیابی نصیب ہوئی۔ قومی ٹیم کی جنوبی افریقہ کے خلاف کارکردگی پر تنقید کا محور سینئر کھلاڑیوں کی کارکردگی ہے شاید تنقید کرنے والے اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ جب دنیا کی نمبر ون اور نمبر پانچ ٹیموں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے تو اس میں نمبر ون ٹیم کو ہی فیورٹ قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان اور جنوبی افریقہ کا کسی طور پر کوئی مقابلہ نہیں تھا پھر بھی پاکستانی قوم کی ٹیم سے توقعات ضرورت سے زیادہ تھیں ہر پاکستانی شائقین کی خواہش تھی کہ حریف ٹیم کو ہمارے شیر جوان چاروں شانے چت کریں مگر یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکتا تھا جب ہمارے کھلاڑیوں میں دنیا کے بہترین کھلاڑیوں والی خوبیاں بھی موجود ہوں۔ پاکستان ٹیم ہمیشہ سے ہی ناقابل بھروسہ رہی ہے۔ اس کے بارے میں کبھی معلوم نہیں ہوتا کہ اس نے کون سا ریکارڈ قائم کرنا ہے جیسے شاہد آفریدی نے جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں صفر پر آ¶ٹ ہونے کا عالمی ریکارڈ قائم کردیا۔ ٹی وی اور اخبار کے سینئر تجزیہ کار سید طلعت حسین کی مجھے یہ بات بہت اچھی لگی ان کا کہنا تھا کہ ہماری ٹیم میں کوئی ایک کھلاڑی اچھی اننگز کھیل جائے تو ہم اس کا شمار لیجنڈز میں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ شاہد آفریدی نے جس طرح صفر پر آ¶ٹ ہونے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا یہ لیجنڈ کی شان نہیں ہے۔ ان کی یہ بات بھی بہت اچھی تھی کہ ہمارے کھلاڑیوں کو اس بارے میں علم نہیں کہ انہوں نے جنوبی افریقہ کی تیز وکٹوں پر کیسے کھیلنا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کہاں ہے اس نے کھلاڑیوں کو اہم دورہ کے لئے تیار کیوں نہیں کیا۔ طلعت حسین کی کھری باتوں سے ایسا محسوس ہوا کہ انہیں بھی قومی ٹیم کی کارکردگی پر بہت دکھ ہوا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی ذمہ داری ہے کہ وہ دورہ کی کارکردگی کا باریک بینی سے جائزہ لے اور کھلاڑیوں کو بلا کر انہیں پوچھے کہ اپنے آپ کو لیجنڈ کہلوانے والے سٹار کرکٹرز کی کارکردگی دورہ میں کیا رہی ہے۔ ان کی ایک بات سے میں متفق ہوں کہ ہمارے ہاں سپورٹس جنرلزم میں بھی پسند نہ پسند بہت زیادہ ہو گئی ہے اپنے پسند کے کھلاڑی کی ناقص کارکردگی کو بدقسمتی سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ ناپسندیدہ کھلاڑی کی اچھی کھیلی گئی اننگز کے بارے میں بھی ایسا جملہ لکھتے ہیں کہ جیسے اس کھلاڑی کی کارکردگی کی وجہ سے ٹیم کو نقصان ہوا ہو۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے موجودہ چیئرمین چودھری ذکاءاشرف کےلئے موجودہ صورتحال کافی تشویشناک ہے کیونکہ قومی ٹیم میں پسند اور ناپسند کی وجہ سے پلیئرز پاور نے جنم لے لیا ہے جسے فوری طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ سابق چیئرمین پی سی بی اعجاز بٹ کے سخت فیصلوں کی وجہ سے ماضی میں ٹیم سے پلیئرز پاور کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ جنوبی افریقہ کے دورہ میں قومی کھلاڑیوں نے بے شک ناقص کارکردگی دکھائی لیکن ان کے بینک بیلنس میں بھاری رقوم کا اضافہ ہو گیا ہے۔ اتنی بھاری رقوم حاصل کرنے کے باوجود کھلاڑیوں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔ کھلاڑیوں کو چاہئے کہ وہ کم از کم میچ کے معاوضہ کے مطابق ضرور کھیلیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹونٹی کی میچ فیس اور کھلاڑیوں کی کارکردگی کچھ اس طرح ہے۔ مصباح الحق نے تین ٹیسٹ اور پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز میں پاکستان ٹیم کی نمائندگی کی جس میں انہوں نے 362 رنز بنائے جبکہ دونوں سیریز کی میچ فیس اور ڈیلی الا¶نس کی مد میں تقریباً 35 لاکھ روپے وصول کرنے ہیں۔ اس طرح ان کا فی سکور تقریباً ساڑھے 9 ہزار روپے میں پڑا۔ عمران فرحت نے دو ون ڈے کھیلے جس میں ان کی میچ فیس اور ڈیلی الا¶نس کے تقریباً 10 لاکھ روپے بنے۔ انہوں نے 106 رنز بنائے ان کا فی سکور ٹیم کےلئے ساڑھے 9 سو روپے میں پڑا۔ شعیب ملک نے ٹی ٹونٹی اور ون ڈے میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی جس میں ان کے میچ فیس اور ڈیلی الا¶نس کی مد میں تقریباً 25 لاکھ روپے بنے۔ انہوں نے 105 رنز بنائے شعیب ملک کا فی سکور تقریباً 22 ہزار روپے میں پڑا۔ شاہد آفریدی جنہوں نے ون ڈے میں چھکوں کی ٹرپل سنچری سمیت صفر پر آوٹ ہونے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ انہوں نے پانچ ایک روزہ اور ایک ٹی ٹونٹی میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی جس پر ان کی میچ فیس اور ڈیلی الا¶نس کی مد میں 25 لاکھ روپے بنے۔ انہوں نے دونوں سیریز میں 145 رنز بنائے اس طرح ان کا فی سکور تقریباً 17 ہزار روپے میں پڑا۔ ٹی ٹونٹی کے کپتان محمد حفیظ نے تینوں فارمیٹ میں حصہ لیا جس میں ان کی میچ فیس اور ڈیلی الا¶نس کی مد میں تقریباً 35 لاکھ روپے بنے۔ انہوں نے ان میچوں میں 247 رنز بنائے۔ ان کا فی سکور 14 ہزار روپے میں پڑا۔ یونس خان نے ٹیسٹ اور ون ڈے میں نمائندگی کی جس میں انہوں نے 300 رنز بنائے۔ یونس خان کو بھی تقریباً میچ فیس اور ڈیلی الا¶نس کی مد میں 35 لاکھ روپے ملےں گے۔ ان کا فی سکور پاکستان کےلئے تقریباً ساڑھے 11 ہزار روپے میں پڑا۔ کامران اکمل نے پانچ ایک روزہ اور ایک ٹی ٹونٹی میچ میں 110 رنز بنائے انہیں میچ فیس اور ڈیلی الا¶نس کی مد میں تقریباً 25 لاکھ روپے ملیں گے ان کا فی سکور ٹیم کےلئے 22 ہزار روپے میں پڑا۔ وہاب ریاض کو تین ایک روزہ میچوں میں نمائندگی دی گئی جس میں انہوں نے 57 رنز بنانے کے علاوہ دو کھلاڑیوں کو آ¶ٹ بھی کیا انہیں میچ فیس اور ڈیلی الا¶نس کی مد میں تقریباً 12 لاکھ روپے ملیں گے۔ ان کی پرفارمنس فی رن اور وکٹ تقریباً دو ہزار روپے میں پڑے گی۔ جنید خان نے پانچ ون ڈے ایک ٹیسٹ اور ایک ٹی ٹونٹی میچ کھیلا جس میں انہوں نے 51 رنز اور 10 وکٹیں حاصل کیں جنید خان کو بھی تقریباً 25 لاکھ روپے میچ فیس اور ڈیلی الا¶نس کے طور پر ملیں گے۔ ان کی کارکردگی تقریباً 2 ہزار روپے کے قریب فی سکور اور وکٹ پڑے گی۔ ناصر جمشید جو کہ تینوں فارمیٹ میں شامل رہے ان کی میچ فیس اور ڈیلی الا¶نس کی مد میں 25 لاکھ روپے بنتے ہیں۔ انہوں نے 109 رنز بنائے تقریباً 23 ہزار روپے میں ان کا فی سکور پاکستان کو پڑا ہے۔ اسد شفیق نے ایک ون ڈے اور تین ٹیسٹ میچوں میں ملک کی نمائندگی کی جس میں ان کی میچ فیس اور ڈیلی الا¶نس کی مد میں 20 لاکھ روپے بنتے ہیں۔ انہوں نے 204 رنز سکور کئے جو پاکستان ٹیم کو تقریباً 10 ہزار روپے میں فی سکور پڑا ہے۔ عمر گل نے بھی اس طرح تینوں فارمیٹ میں حصہ لیا تقریباً 25 لاکھ روپے میچ فیس اور ڈیلی الا¶نس کے بنے وہ بھی ملک کے لئے مہنگے ترین کھلاڑی ثابت ہوئے۔ ابھرتے ہوئے دراز قد کے مالک محمد عرفان نے تینوں فارمیٹ میں قومی ٹیم کو مدد فراہم کی۔
ہمارے کھلاڑیوں نے ایک سیریز سے لاکھوں روپے اپنے بینک اکا¶نٹ میں ڈال لیے جب کہ ملک کو انہوں نے صرف شکستوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے کھلاڑی انہیں ملنے والی رقم کے لگ بھگ کارکردگی دکھاتے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہئے کہ کھلاڑیوں کی میچ فیس بھی رزلٹ کے ساتھ منسلک کر دے جیت کی صورت میں میچ فیس ملے گی ہار کی صورت میں صرف ڈیلی الا¶نس تک محدود کر دیا جائے گا۔