گیلانی کی نظرثانی درخواست سماعت کیلئے منظور، یہ زائد المعیاد ہو چکی، جسٹس افتخار
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نظرثانی درخواست سماعت کے لئے منظور کرلی گئی ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، درخواست 204 دن کی تاخیر سے دائر کی گئی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں 8 رکنی سپیشل لارجر بنچ نے یوسف رضا گیلانی توہین عدالت کی سزا کے خلاف دائر نظرثانی کی متفرق درخواست کی سماعت کی تو سابق وزیراعظم نے خود دلائل دیتے ہوئے کہاکہ راجہ پرویز اشرف کے خط لکھنے کے بعد ان کا مﺅقف درست ثابت ہو گیا، نئی صورت حال کے پیش نظر انہوں نے اپیل دائر کی ہے۔ وفاقی حکومت نے خط لکھ کر وہ وجہ ختم کر دی جو میری سزا کی بنیاد بنی۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ راجہ پرویز اشرف کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس کب خارج ہوا؟ گیلانی نے جواب دیا کہ پرویز اشرف کے خلاف نوٹس 14نومبر 2012ءکو خارج ہوا، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ اس کے بھی بعد آئے ہیں سزا کے خلاف 30 دن میں انٹرا کورٹ اپیل دائر کرنا تھی تاخیر کی وجہ بتانا ہو گی ورنہ لوگ کہیں گے کہ گیلانی کو رعایت دی گئی ہے۔ گیلانی نے کہاکہ میں نے اپنی درخواست میں تاخیر کی وجہ لکھ دی ہے اس پر جسٹس خلجی عارف حسین نے کہاکہ آپ خود پڑھ لیں کہ آپ نے کیا لکھا؟ پھر آپ خود فیصلہ کریں کہ عدالت آپ کی اپیل کو سننے کی مجاز ہے کہ نہیں؟ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کی درخواست زائد المیعاد ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ زائد المیعاد معاملات پر سماعت کی اجازت دے دی تو یہ روایت بن جائے گی۔ عدالت نے درخواست کے زائد المیعاد ہونے سے متعلق این آر او کے خلاف درخواست دائر کرنے والے تمام درخواست گزاروں کو نوٹسز جاری کر دئیے۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو معاونت کیلئے نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 3 ہفتوں کیلئے ملتوی کر دی۔ کیس کے دوران سید محمود اختر نقوی نے کیس میں فریق بننے کی درخواست دینے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا وہ آئندہ ایسی درخواستیں دائر کرنے سے باز رہیں۔ سید یوسف رضا گیلانی ذاتی طور پر پیش ہوکر موقف اختیار کیا کہ این آر او کے معاملے میں ان کا موقف بھی وہی تھا جو ان کے بعد کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے اختیار کیا اور عدالت نے اسے تسلیم بھی کیا تھا۔ پہلے نظرثانی کی درخواست دی تھی مگر بعد کے حالات کی وجہ سے انٹرا کورٹ اپیل دائر کی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے انٹرا کورٹ اپیل 204 دن بعد دائر کی حالانکہ یہ اپیل 30 دنوں کے اندر دائر کرنی چاہئے تھی۔جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ آپ کو دلائل سے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ آپ کے خلاف دیا جانے والا فیصلہ صحیح نہیں تھا۔ آپ وزیراعظم تھے جب آپ کیخلاف کارروائی کی گئی۔ آپ کا عہدہ اور پوزیشن اب تبدیل ہو چکی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آپ کو خود ہی واضح کرنا ہوگا ورنہ لوگ کہیں گے یوسف رضا گیلانی کو ریلیف دیا گیا۔گیلانی نے کہا کہ وہ دلائل کیلئے ہر طرح سے تیار ہیں۔ وہ کل بھی کہتے تھے اور آج بھی کہتے ہیں کہ صدر کو ملکی اور بین الاقوامی قوانین کے تحت استثنیٰ حاصل ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی انٹرا کورٹ اپیل 204 دن کے حساب سے زائد المیعاد ہے۔ اسے سماعت کیلئے منظور کرنے کیلئے دیگر فریقین کیساتھ ساتھ درخواست گزار کا موقف بھی جاننا پڑے گا۔ انہیں سنے بغیر فیصلہ نہیں کر سکتے۔