حقائق کا تعین توہین عدالت کی فرد جرم کے بعد ہوگا : سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کی توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد ہونے کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت آج تک ملتوی کرتے ہوئے توہین عدالت کیس کا ریکارڈ اور وہ معروضی نکات جن پر بحث کی جائے گی طلب کر لئے ہیں۔ چیئرمین نیب فصیح بخاری کے وکیل کا کہنا تھا میرے موکل نے صدرکو لکھا گیا خط میڈیا کو فراہم نہیں کیا، عدالت ذاتی نوعیت کے خط کی سماعت نہیں کر سکتی، جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے چیئرمین نیب کی انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کی، چیئرمین نیب کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ میرے موکل نے صدر کو جو خط لکھا تھا وہ خفیہ تھا ہمیں نہیں معلوم کہ میڈیا کی اس خط تک رسائی کیسے ہوئی، رینٹل پاور کیس میں چیف جسٹس کی سربراہی میں بنچ نے معاملہ اٹھایا اور ہم نے وہاں بھی یہی کہا کہ ہمیں اس بات کا علم نہیں لیکن عدالت بضد تھی کہ یہ خط میڈیا تک کیسے پہنچا۔ اس بارے میں بتایا جائے۔ وکیل کا کہنا تھا اگر خط کی میڈیا تک رسائی کے بارے میں ہمیں علم ہوتا تو پھر توہین عدالت کے نوٹس خارج ہو جاتے، ہم نے بھی اس بات پر تحفظات کا اظہار کیا کہ یہ خط باہر میڈیا تک کیسے پہنچا، اس کی تحقیقات ہونی چاہئے، جس نے خط میڈیا کو جاری کیا اس کے خلاف بھی توہین عدالت کی کارروائی ہونی چاہئے اگر اتنی مداخلت ہو تو کوئی تفتیشی تفتیش نہیں کر سکتا، چیئرمین نیب نے تفتیش کے کام میں مداخلت پر صدر کو خط لکھا جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ اب آپ یہ چاہتے ہیں کہ عدالت خط کے لیک ہونے سے متعلق تحقیقات کرے۔ نجی ٹی وی کے مطابق لطیف کھوسہ نے کہا چیئرمین نیب کا خط صرف صدر کیلئے تھا۔ چیئرمین نیب نے میڈیا کو جاری نہیں کیا۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ دو باتیں اہم ہیں کہ خط لکھا گیا اور میڈیا میں بھی آیا۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ چیئرمین نیب نے تفتیشی ادارے کے کام میں مداخلت پر صدر کو خط لکھا۔ جسٹس ثاقب نے کہا خط سے متعلق حقائق کا تعین توہین عدالت کی فردجرم کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے۔