کیا یہ وہی گورنر ہاﺅس ہے؟
میں گورنر ہاﺅس کے دروازے پر کھڑا رہ گیا کیا یہ وہی گورنر ہاﺅس ہے جہاں جنرل خالد مقبول سلمان تاثیر، لطیف کھوسہ رہتے تھے۔ نہ کوئی تصویر نہ کوئی گارڈ۔ میں رستہ تو نہیں بھول گیا تھا؟ یہ نگران پنجاب حکومت سے کچھ پہلے کا واقعہ ہے۔ شریف برادران کے درمیان حمزہ شہباز کی تصویر تھی۔ وہ بھی گورنر ہاﺅس سے پہلے کسی کھمبے کے ساتھ ٹنگی ہوئی تھی۔ کسی نے گاڑی کو چیک نہ کیا۔ مجھے سلام بھی کیا۔ میں حیران ہو کر چلا گیا۔ جب سکیورٹی کے دو ایک لوگوں کو معلوم ہے کہ یہ کون ہے۔ تو پھر مجھ سے کیا خطرہ کسی کو ہے۔
سی ایم ہاﺅس میں ہمیشہ زیادہ پروٹوکول رہا ہے۔ کچھ لوگ صرف ایم این اے تھے مگر اُن کا دفتر بھی سی ایم ہاﺅس 90۔ مال میں تھا۔ ان کے لئے بھی اتنی ہی سکیورٹی اور پروٹوکول تھا۔ نجانے اب یہ لوگ کیا کرتے ہونگے۔ انہیں یقین ہے کہ چند دنوں کے بعد پھر آ جائیں گے۔ جیسے وہ گئے ہی نہیں۔
آجکل نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی چند دنوں میں وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں جو چند سالوں میں کیا جاتا ہے۔ انہوں نے حلف اٹھایا جیسے اب ان کی حکومت کبھی ختم نہ ہو گی ہمارے ہاں سیاسی سرکاری لوگ حلف ایسے اٹھاتے ہیں کہ عرب سکالر خلیل جبران یاد آتا ہے۔ ”اُس نے کہا۔ میں نے مان لیا۔ اس نے اصرار کیا۔ مجھے شک گزرا۔ اس نے قسم کھائی (یعنی حلف اٹھایا) میں نے کہا جھوٹ بکتا ہے .... اور حکمران سیاستدان جھوٹ بولتے رہتے ہیں۔ جب گورنر صاحب مخدوم احمد محمود نے نجم صاحب کو پڑھایا کہ میں اسلامک آئیڈیالوجی (نظریہ پاکستان) کی حفاظت کروں گا جو پاکستان کی بنیاد ہے۔ اور میں اسلامک جمہوریہ پاکستان کا وفادار رہوں گا۔ تو انہوں نے کنکھیوں سے سیکولر نگران وزیراعلیٰ کی طرف دیکھا۔ اور ہلکے سے مسکرائے۔
مخدوم احمد محمود کمپلیکس فری آدمی ہیں جیسے انہیں خبر بھی نہ تھی کہ وہ گورنر ہیں۔ یہ احساس دلانے کے لئے گورنروں نے نجانے کیا نہیں کیا۔ لطیف کھوسہ نے کرکٹ کھیلی اور چھکا مارنے کی کوشش میں گر پڑے۔ اس طرح پاس کھڑے ذاتی آفیسران کے چھکے چھوٹ گئے۔ کھوسہ صاحب نے ایک گرلز کالج میں جوڈو کراٹے کا مظاہرہ کیا۔ جو وہاں طالبات اور لیڈی ٹیچرز نے بہت انجوائے کیا۔ ایک نوجوان لیکچرر نے کہا کہ اگر یہ مظاہرہ کھوسہ صاحب ٹوپی اتار کر کرتے تو اور زیادہ مزا آتا۔ وہ آجکل یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ نگران وزیراعظم کھوسو صاحب بھی پچھلے جنم میں کھوسہ تھے۔ کچھ جیالوں نے یہ سوچتے ہوئے سیاسی زندگی گزاری ہے کہ بھٹی اور بھٹو میں کیا فرق ہے۔ ایم این اے ن لیگ نصیر بھٹہ کہنے لگے کہ میں پیپلز پارٹی کا ایم این اے بن گیا تو پھر بھٹو اور بھُٹہ میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔
مخدوم احمد محمود سے ملاقات میں مجھے یہ محسوس ہوا کہ وہ گورنر نہیں ہیں۔ گورنر ہوتے ہوئے گورنر نہ ہونا کیسا تجربہ ہے؟ میں تو گورنر سے ملنے گیا تھا۔ مگر وہ تو مخدوم احمد محمود کے طور پر مجھے ملے۔ انہوں نے مخدوم یوسف رضا گیلانی کی طرح یہ بھی نہیں کہا کہ مجھے مخدوم نہ کہا جائے۔ عجیب بات ہے کہ وہ تب اپنی خدمت خود کرتے رہے اس حوالے سے وہ خودکفیل ہیں۔ اب وہ وزیراعظم نہیں ہیں تو پھر مخدوم ہو گئے ہیں۔ مخدوم احمد محمود فارسی کے اس مصرعے کو پوری طرح سمجھتے ہیں۔
ہر کہ خدمت کرو او مخدوم شد
مجھے بالکل نہیں لگا کہ یہ ان کے ساتھ میری پہلی ملاقات ہے اور نہ یہ محسوس ہوا کہ ان سے یہ میری آخری ملاقات ہے۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ میں پہلی بار گورنر ہاﺅس آیا ہوں۔ ایک دوستانہ ماحول تھا جو مصنوعی نہ تھا جو فطری بھی نہ تھا۔ ماحول کو فطری بنانے کے لئے بھی بہت سیاست کی جاتی ہے میں نے کہا کہ حکمران وہ ہے جس کی موجودگی دوسروں کے لئے آسودگی کا باعث ہو۔ مخدوم صاحب نے کہا کہ حکمران کی موجودگی کا احساس بھی نہیں ہونا چاہئے۔ میں نے سوچا کہ ان کی بات میری بات سے بڑی بات ہے۔
بڑی خوبصورت سرائیکی میں وہ بات کرتے ہوئے پینڈو لگ رہے تھے۔ دیہاتی پن کا بانکپن ان کے لہجے میں تھا۔ وہ اردو میں بھی بات کرتے تو سادگی اور آسودگی میں فرق نہ رہتا۔ کوئی سیاسی بات انہوں نے نہ کی۔ میں نے بھی نہ کی۔ باتوں میں سیاسی اور غیر سیاسی کی تمیز اٹھ گئی تھی۔ سارے وقت میں وہ اپنے لوگوں کے بارے میں زیادہ گفتگو کرتے رہے۔ انہوں نے رابطے کو رشتے میں بدل دیا ہے۔ مجھے دعوت بھی دی کہ آپ میرے ساتھ میرے گاﺅں چلو۔ وہاں موجود عبدالقادر شاہین نے کہا کہ کچھ اور دوستوں سے بھی رابطہ کرتے ہیں اور چلے چلتے ہیں۔ اس پر مخدوم صاحب نے کہا کہ صرف اجمل نیازی چلیں گے۔ یہ میرے بھی دل کی بات تھی۔ دوست تو میرا عبدالقادر شاہین ہے مگر دوستی کی لہر مخدوم صاحب کی بات میں تھی۔ دوستی میں سیاست اور سیاست میں دوستی کے درمیان ایک فرق ہے جو عمر بھر سمجھ میں نہیں آتا۔ میرے گھر عبدالقادر شاہین آئے تھے۔ ارشاد بھٹی بھی ان کے ساتھ تھے۔ وہ جانے لگے تو میں نے دیکھا کہ اُن کے ساتھ کوئی گارڈ نہ تھا۔ ڈرائیور بھی نہ تھا۔ میری حیرت دیکھ کر کہنے لگے کہ میرا گورنر کوئی پروٹوکول اور سکیورٹی نہیں رکھتا تو میں کیوں رکھوں۔ پھر میں نے برادرم ارشاد بھٹی کو ان کے ساتھ بٹھا دیا۔
گورنر صاحب بلکہ مخدوم صاحب سے ملاقات میں مشہود شورش بھی شریک ہو گیا۔ وہ شورش کاشمیری کی نشانی ہے جس کی حریت فکر جرات گفتار اور غیرت قلم کی نشانیاں آج بھی ہماری آنکھوں میں زندہ ہیں۔ میں نے شورش کو سنا ہے اور پھر ایسی آواز نہ سُنی۔ وہ آواز کے راز کو جانتے تھے۔ اور آج ہمارے پاس کوئی راز نہیں ہے۔
بہاولپور کے لئے صوبے کی بات بھی مخدوم صاحب نے اس طرح کی کہ وہ سیاسی نہ لگی۔ سیاسی کام بھی غیر سیاسی طریقے سے ہونے لگیں تو بات بہت آسان ہو جائے گی۔ سیاست کے بغیر چارہ¿ کار نہیں تو اسے زندگی میں اس طرح شامل کیا جائے کہ یہ ہمارے روزمرہ کا سچ بن جائے۔ بہاولپور کے حوالے سے میں نے اس ڈر سے محمد علی درانی کا نہ پوچھا کہ کہیں مخدوم صاحب یہ نہ کہہ دیں کہ وہ کون صاحب ہیں؟