• news

حکمرانی کے پانچ ” برص“

مشہور سائنسدان آئن سٹائن سے اس کے ملازم نے پوچھا THEORY OF RELITIVITY کیا ہے۔ آئن سٹائن اسے عام فہم زبان میں سمجھاتے ہوئے بولا۔ اگر کوئی شخض محبوب کی معیت میں بیٹھا ہو تو اسے چند گھنٹوں کاعرصہ بھی چند سیکنڈ محسوس ہوتا ہے اگر دہکتے ہوئے تنور کے پاس بٹھا دیا جائے تو چند گھڑیاں بھی کاٹنی مشکل ہو جاتی ہیں۔ اس حکومت کی کارکردگی دیکھ کر لامحالہ ذہن اس نامور سائنس دان کے قول کی طرف جاتا ہے۔ پاکستان کو بنے ہوئے قریباً 65 سال ہو گئے ہیں۔ ساٹھ سال کا عرصہ تو لوگوں نے کسی طور کاٹ لیا ہے لیکن گذشتہ پانچ برس ہر اعتبار سے ان ساٹھ سالوں پر حاوی رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے سابق ”سادہ لوح“ وزیراعظم نے سادگی کی انتہا کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کا دور گذشتہ تمام ادوار سے بہتر ہے۔ پتہ نہیں ان زریں خیالات کے سُننے کے بعد لوگ ہنسے تھے روئے تھے یا بیک وقت ہر دو کیفیات ان پر طاری ہوئی تھیں۔ کہتے ہیں کہ دو آدمیوں کا کچھ بھی نہیں بگاڑا جا سکتا ایک وہ جو منہ پر جھوٹ بول جائے اور دوسرا وہ جو دریا کے پار لباس اتار دے۔ یہ کریڈت سابقہ حکومت کو جاتا ہے جس نے ہر دو کارنامے ایک ساتھ سرانجام دئیے ہیں۔ آئیے ان کی کارکردگی پر ایک اُچٹتی سی نگاہ ڈالتے ہیں۔ یہ جب آئے تو اس وقت لوڈشیڈنگ نہ ہونے کے برابر تھی۔ ڈالر 62 روپے کا تھا ، چینی 23 روپے فی کلو تھی۔ اسی طرح تمام اشیا ئے خوردو نوش کی قیمتیں موجودہ نرخوں کا ایک چوتھائی تھیں۔ انہوں نے سارا الزام سابقہ حکومتوں کے سر ڈالتے ہوئے شور مچایا کہ سب مسائل انہیں ورثے میں ملے ہیں۔ ساتھ ہی راجہ صاحب نے وعدہ فرمایا کہ ایک سال میں توانائی کا مسئلہ حل کر دیا جائے گا۔ واقف حال لوگ جانتے تھے کہ جو مسئلہ نہیں تھا ”اس کو عمداً مسئلہ بنایا گیا تھا گھوڑے کو گھاس کی ضرورت تھی ۔ بارہ چودہ سال سے اقتدار سے محروم لیڈروں کی بھوک چمک اٹھی تھی ۔ مہاتما بدھ کی طرح ان کا پیٹ ریڑھ کی ہڈی سے جا لگا تھا۔ لمحہ موجود پر یقین رکھنے والے لوگوں کو اس بات کا ادراک تھا کہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ۔ لوڈشیڈنگ کیا کم ہونی تھی نتیجتاً راجہ صاحب رینٹل ہو گئے اور ساری قوم مینٹل۔ غضب کی گرمی میں لوگ ہوا کے جھونکے کو ترس گئے۔ کڑکڑاتے ہوئے جاڑے میں گیس ناپید ہو گئی۔ ضروریات زندگی کی اشیاءکے نرخ آسماں سے باتیں کرنے لگے، مسئلہ صرف کمیشن کا تھا سو حل ہو گیا۔ عدالت نے راجہ صاحب کو موردِ الزام ٹھہرایا۔ زرداری نے انہیں انعام سے نواز دیا۔ وزارت عظمی اگر چند ماہ کی بھی ہو تو آنے والی نسلوں کی عاقبت سنور جاتی ہے۔
یہ غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کوئے یار سے نکل کر لوگ سوئے دار چل پڑتے ہیں اور اسیران نفس گلشن میں براجمان ہو جاتے ہیں ۔ سکندر مرزا ، ایوب خان ، یحیٰی خان ، ذوالفقار علی بھٹو ، آصف زرداری ، بے نظیر اور میاں برادران کس کس کی مثال دی جائے۔ یوسف رضا گیلانی کو غیر قانونی بھرتیوں کے جرم میں پانچ سال کی سزا ہوئی۔ ”چاہ یوسف سے صدا“ لکھ کر (یا لکھوا کر) شاہ صاحب نے کچھ یوں تاثر دیا جیسے جیل میں ملتان کا کو ئی کھلنڈرا زمیندار نہیں بلکہ نیلسن منڈیلا ایام اسیری کاٹ رہا ہے۔ دیدہ دلیری کا یہ عالم کہ وقتاً فوقتاً نعرہ زن ہوتے رہے، آئندہ بھی یہ جرم کرتا رہوں گا۔ وقتی طور پر کچھ لوگ متاثر ہوئے لیکن ان کی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے سال ہی لوگو ں کو ادارک ہو گیا کہ یہ یوسف نہیں جسے بازارِ مصر بیچ دیا گیا تھا بلکہ یہ وہ یوسف ہے جس نے سارا بازار خرید لیا ہے اور اس کارِ خیر میں سارے خاندان نے مقدور بھر ان کا ہاتھ بٹایا ہے۔ کوئی ایفی ڈرین کیس میں ملوث ہے تو کوئی حج سکینڈل کا سرغنہ ہے۔ لندن کا کوئی ایسا جوا¿ خانہ نہیں ہے جہاں ان لوگوں نے ملکی دولت نہ لُٹائی ہو۔ ہیرڈز میں کروڑوں روپے کی شاپنگ کے قصے ایک تسلسل کے ساتھ اخباروں میں چھپتے رہے الیکٹرانک میڈیا میں آپکی بھد اُڑتی رہی لیکن ان کے کان پر جوں تک رینگی۔ ان کا استدلال بڑا انوکھا اور منفرد تھا۔ ہر سکینڈل، ہر بدنامی کسی نہ کسی دن وقت کی راکھ میں دب جاتی ہے کیونکہ اس قوم کا حافظہ بڑا کمزور ہے۔ جو لوگ بخت نصر کا قصہ پڑھ کر حیران ہوتے ہیں انہیں ان حکمرانوں کی زندگی کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ آصف علی زرداری ایک طویل عرصہ تک قید رہے۔ مقدمات کی بھرمار کی وجہ سے انکی جلد ضمانت تک نہ ہو سکی۔ جب ضمانت ہوئی تو کچھ یوں گماں ہوا جیسے یہ اپنی بدنامیوں کی پوٹلی سمیٹ کر ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گئے ہیں۔ دبئی میں بھی بوجوہ انہیں اپنے خاندان کے ساتھ رہنا نصیب نہ ہوا اور خود ساختہ جلاوطنی کے دن کا ٹنے کیلئے نیویارک چلے گئے۔ محترمہ بے نظیر کی ناگہانی موت نے انہیں کیا سے کیا بنا دیا۔ دبئی سے واپس آئے تو بادشاہ گر کہلائے ۔ صدارت کے ہُما نے بھی انکے سر پر بیٹھنے میں دیر نہ کی۔ سوال یہ نہیں ہے کہ سوئس کیس جھوٹا ہے یا سچا۔ سوال یہ بھی نہیں ہے کہ انہیں مقدمہ تاخیری حربوں کی وجہ سے قابل گرفت ہے یا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مقدمے سے جُڑے سوئس بنکوں میں اب بھی اس ملک کے اربوں روپے پڑے ہیں۔ مخدوم اتنا ہی لکھ دیں کہ وہ رقم حکومت پاکستان کو لوٹا دی جائے یہ جو نائیک، لائق فائق قسم کے لوگ قانونی موشگافیاں نکالتے رہتے ہیں کیا انہیں کبھی بھی ضمیر کی خلش محسوس نہیں ہوتی؟اس حکومت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ ہر وہ شحض جس کو سپریم کورٹ نے مطعون کیا ہے اور موردِ الزام ٹھہرایا ہے انہوں نے بلا تخصیص اسے نوازا ہے اگر عدالت کہتی ہے کہ بد عنوانیوں کے جرم میں فلاں شخض کے خلاف فوجداری کارروائی کرو تو یہ اسے چیف سیکرٹری لگا دیتے ہیں۔ جن لوگو ں پر اربوں روپے کے غبن کا الزام ہے یہ انہیں بھگا دیتے ہیں۔ توقیر صادق اور خوشنود لا شاری کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جس طرح حکومت کو 90 ارب روپے کا چونا لگانے والے شحض کو دبئی دوڑایا گیا ہے اس پر ہالی وڈ والے چاہیں تو ایک اور تھرلرTHE GREAT ESCAPE بنا سکتے ہیں۔ ایفی ڈرین کیس کے ملزم خوشنود لاشاری کو نہ صرف جانے دیا گیا ہے بلکہ لاکھوں روپے ”علاج“ کی غرض سے بھی دیئے گئے ہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے THIS IS THE WORST EXAMPLE OF PUTTING A PREMIUM On ILLEGALITY (پنجابی محاورے کے مطابق اسے ” چور تے نالے چترا کہتے ہیں۔)
قلم کی سیاہی ختم ہو جائے گی لیکن ان کے ”کارنامے“ ختم نہیں ہونگے ۔ شفاف الیکشن کے دعویداروں نے تمام سیاسی گورنر لگائے ہوئے ہیں۔ وہ انہیں ہر قسم کی کمک پہنچائیں گے۔ نگرانوں کو ڈیڑھ ماہ کے قلیل عرصے میں تو ہوش ہی نہیں آنا۔ سیاسی دُزدان سیاہ کار اپنا ہاتھ دکھا جائیں گے۔ عشرت العباد ہو یا احمد محمود سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ باایں ہمہ پیپلز پارٹی کے لیڈروں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ اس بار وہ مرکز میں حکومت نہیں بنا پائیں گے۔ اس لئے وہ بدترین حالات میں نسبتاً بہتر نتائج کے خواہاں ہیں یہ کیسے ممکن ہو گا ؟ اس کیلئے گہری سوچ بچار کے بعد حکمت عملی تیار کی گئی ہے۔ ایم کیو ایم کے تعاون سے سندھ میں حکومت بنانا، معلق پارلیمنٹ، سینٹ میں اکثریت، گردشی قرضے کو آٹھ سو ارب تک لے جانا، زرمبادلہ کے ذخائر کو خطرناک حد تک نیچے لے آنا، بین الاقوامی مالیتی اداروں سے بروقت امداد نہ لینا۔ آخری وقت میں نوٹ چھاپ چھاپ کر خزانے کو خالی کرنا اور INFLATION کو خطرے کی حد تک پہنچانا۔ پاک ایران معاہدے کی صورت میں امریکی امداد کی بندش۔ الغرض DOOMS DAY SCENARIO کے سب اجزا کو یکجا کیا گیا۔ بالفرض میاں نواز شریف یا عمران خان کولیشن گورنمنٹ بنا کر آ بھی جائیں تو کیا کر لیں گے؟ کیا ان کے پاس الہ دین کا چراغ ہو گا جس کے رگڑنے سے روایتی جِن گھپ اندھیروں کو روزِ روشن میں بدل دے گا؟ ہمارا المیہ یہ ہے کہ اکسیویں صدی میں معجزے کبھی نہیں ہوتے۔ یہ درست ہے کہ یہ مملکتِ خداداد ہے لیکن رب ذوالجلال کے احکامات بھی بڑے واضح ہیں۔ آخری موقعہ! کیا یہ بدقسمت قوم اپنے ناتواں کندھوں سے ان پیشہ ور لیڈروں کا بارِ گراں اتار سکے گی؟

ای پیپر-دی نیشن