پرویز مشرف کی واپسی اور آئین کی دفعہ 62 اور 63
مکرمی! کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں ایک کفن چور ہوا کرتا تھا جو ُمردوں کے کفن اتار لیا کرتا تھا اس کی اس حرکت سے علاقے والے بہت تنگ تھے آخر ایک لوگوں کو یہ خوشخبری ملی کہ وہ کفن کفن چور مرگیا ہے جس پر عوام نے سکھ کا سانس لیا کہ اب کم از کم ہمارے مردے سکون سے قبروں میں رہ سکیں گے لیکن کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ وہی پرانا سلسلہ ایک نئے اور خوفناک طریقے سے شروع ہو گیا۔ پرویز مشرف پاکستان آئے ہیں اور آتے ہی اس نے اپنے اوپر لگنے والے تمام الزامات کو مسترد کر دیا ہے حالانکہ اپنے دور حکومت میں غرور و تکبر کا یہ مجسمہ آئے روز میڈیا پر اپنے مخالفین کو مکے دکھایا کرتے تھے اور اکبر بگٹی کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”میں تمہیں ایسی جگہ سے ٹارگٹ کروں گا کہ تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا“ اور لال مسجد کے بارے میں پریس کانفرنس میں کہا کہ صرف 94 ہلاکتیں ہوئی ہیں اول تو کسی ایک انسان کی جان بھی لینا بھی پوری انسانیت کو قتل کر دینے کے مترادف ہے لیکن ان کا لغو دعویٰ معروف سماجی کارکن عبدالستار ایدھی کے اس وقت کے بیان سے ثابت ہوتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ لال مسجد کے شہدا کیلئے 1800 کفن دئیے جا چکے ہیں اور 300 مزید مانگے گئے ہیں۔ بلوچستان کے رہنما ایک عرصے سے یہ مطالبہ کرتے آرہے ہیں کہ پرویز مشرف کو سزا دینے سے صوبے کے حالات بہت حد تک ٹھیک ہو جائیں گے لیکن موصوف کراچی ایئرپورٹ پر بڑے جوش سے یہ اعلان کر رہے ہیں کہ میں کسی سے نہیں ڈرتا پرویز مشرف کی واپسی عدالتوں اور الیکشن کمشن کیلئے ایک امتحان ہے کہ اگر پرویز مشرف آئین کی دفعہ 62 اور 63 پر پورا اترتے ہیں تو پھر آئین سے اس شق کو ختم کر دینا چاہئے کہ پرویز مشرف کے جرائم کے سامنے تو اس ملک کے بڑے بڑے چوروں ڈاکوو¿ں اور لٹیروں کی حیثیت طفل مکتب کی بھی نہیں۔(قاسم علی)