معذرت کے ساتھ
مکرمی! ایک نئے کالم نگار کو ان کے کالم کے بارے میں رائے دی فوراً جواب آیا۔ پھر تین چار دفعہ ایسا ہوا اور ہر ای میل کا جواب دوسرے ہی دن آتا رہا لیکن پھر شاید کسی سینئر نے سمجھایا۔ یا خود ہی انہیں احساس ہوگیا کہ اب جواب دینا ضروری نہیں چنانچہ ایسا ہوا کہ میری ای میل کے جواب میں انہوں نے مجھے لکھا کہ قدیم پنجابی شعرا کے اشعار لکھ کر بھیجو۔ ظاہر ہے ”نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی“ یہ اشارہ تھا کہ بس بھٹی بہت ہو چکا۔ اب اپنے قلم کی چونچ بند رکھو۔ پھر یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد ایک نئے کالم نگار کا پہلا کالم پڑھا۔ تو میں نے لکھ دیا کہ صاحب آپ نے اپنے کالم کیلئے جو مستقل عنوان منتخب کیا ہے۔ وہ کچھ جچا نہیں جواب آیا THANKS FOR YOUR COMMENTS اس کے بعد میں نے سوچا کہ اگر انہیں بھی میرا منہ بند رکھنے کیلئے پہلے کالم نگار کی طرح کوئی فرمائش کر دی۔ جو پوری نہ کی جا سکے۔ تو رائے دینے کا شوق ریزہ ریزہ ہو جائے گا۔ چنانچہ طے کر لیا کہ آئندہ کسی کالم نگار کو خط نہیں لکھا جائے گا۔ گو اس میں ہماری خواہشات کا گلا گھٹ گیا ہے لیکن کالم نگاروں کو ڈسٹرب کرنا بھی تو کسی طور درست نہیں۔(نذر جالندھری فیصل آباد)