• news

بلاول، سیاسی بلائیں اور ردّ ِبلا کا تعویذ

پیپلز پارٹی کے جیالوں کو سلام کہ پارٹی کے مرحوم قائدین ان جیالوں کی وجہ سے دنیائے سیاست میں ابھی تک جی رہے ہیں۔ ”جیوے بھٹو“ اور ”زندہ ہے بی بی زندہ ہے“ جیسے نعرے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کو ابھی تک متحرک رکھے ہوئے ہیں۔ جیالوں کا ایک اور نعرہ ایسا ہے جو ہمیں گذشتہ چند دنوں سے بے چین کئے ہوئے ہے وہ یہ ہے ”تم کتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا“....جب سے بلاول بھٹو زرداری اپنے گھر سے نکلا ہے، ہمیں (خدانخواستہ) ہر گھر سے بھٹو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ”نکلتا“ ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ عین ممکن ہے ہماری طرح ہر جیالا بے چینی سے یہ سوچ رہا ہو....
نکل گیا مری محفل سے وہ تو کیا ہو گا
27مارچ کے اخبارات میں یہ جیالا سوز خبر شائع ہوئی کہ بلاول بوجہ ناراضگی خاموشی سے بیرون ملک روانہ ہو گئے ہیں۔ میڈیا کے اس ہنگامہ پرور دور میں کوئی خاموشی خاموشی نہیں رہتی۔ میڈیا کی عقابی نگاہوں سے خاموشی کے پردے میں جھانکا تو بہت سے پردے فاش ہونے لگے۔ دروغ بر گردن راوی، ایک خبر یہ اڑی فساد کی جڑ حنا ربانی کھر ہیں۔ حنا اور بلاول کا غیرسیاسی تعلق پیپلز پارٹی کے سیاسی بزرگوں کو پسند نہیں تھا۔ جب باپ نے بیٹے سے یہ بات کی تو باپ بیٹے میں گرما گرمی ہو گئی اور بیٹے نے سیاست چھوڑ کر مستقل طور پر کینیڈا منتقل ہو جانے کی دھمکی دی۔ اس دھمکی کو بے اثر کرنے کے لئے صدر زرداری نے اپنی مشہور عالم مفاہمتی پالیسی کا کرشمہ ساز نسخہ آزمایا اور شکر رنجی ختم کر کے باہم شیروشکر ہو گئے لیکن لگتا ہے کہ رنج کا کچھ نہ کچھ نمک کہیں نہ کہیں باقی رہ گیا تھا۔ بلاول نے شیر میں شکر کا تناسب جانچنے کے لئے وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو ہدایت نامہ جاری کیا کہ کراچی میں ان کی والدہ محترمہ پر قاتلانہ حملہ کے دوران سڑک کے آس پاس جاں بحق ہونے والے جیالوں کی اولادوں کو سرکاری نوکریاں دے دی جائیں۔ قائم علی شاہ نے اپنی سابقہ لیڈر کے قائم مقام لیڈر کی ہدایت ماننے سے گریز کیا تو بلاول اور قائم علی شاہ میں باقاعدہ تو تو میں ہو گئی۔ برادرم اجمل نیازی کے ایک نیازمند مخبر نے تو یہاں تک بھی دعویٰ کیا ہے کہ تو تو میں میں کے بعد نوبت ہاتھا پائی تک بھی پہنچ گئی تھی۔ ہاتھا پائی کی خبر سن کر یتیم اور بے روزگار جیالوں نے دست تاسف ملتے ہوئے یہ شعرضرور یاد کیا ہو گا ....
ہم اپنے ہاتھ مل کر سوچتے ہیں
سیاست ہاتھ دکھلاتی ہے کیا کیا
ایک مرتبہ پھر دروغ بہ گردن راوی،بلاول کو پیپلز پارٹی کی چیئرمینی سے فارغ کر کے پارٹی کا سرپرست اعلیٰ بنا دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ابھی ان کی حیثیت سیاسی نابالغ جیسی ہے لہٰذا وہ پارٹی کی علامتی سربراہی تک محدود رہیں۔ بلاول زرداری چار اپریل سے بطور چیئرمین انتخابی مہم کا آغاز کرنے والے تھے اور اسی دوران پارٹی امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرنے کا مرحلہ بھی درپیش تھا۔ بلاول کی تجویز تھی کہ اس مقصد کے لئے ایک پارلیمانی بورڈ تشکیل دیا جائے جو ٹکٹ کے امیدواروں کا انٹرویو کرنے کے بعد اہل لوگوں کا انتخاب کرے لیکن پارٹی میں آمرانہ دستور کی حامل بلاول کی پھوپھی فریال تالپور نے اس تجویز کو دھتکارتے ہوئے اصل اختیارات اپنے دست زرکار میں رکھنے کا فیصلہ کیا اور زرداری کے منہ بولے بھائی مظفر اویس عرف ٹپی کی زرخیز مشاورت کو ترجیح دی۔ بلاول نے اس صورتحال پر اپنے تاثرات سے والد کو آگاہ کیا۔ بلاول کا خیال ہو گا کہ اس کے والد نے فریال تالپور پر اس کے اعتراض کو اہمیت نہ بھی دی تو کم از کم ٹکٹوں کی تقسیم میں مظفر عباس ٹپی جیسے غیرسیاسی شخص کا ٹپ ٹپاﺅ تو ضروربند کر دیں گے اور اس نازک انتخابی مرحلہ پر بے نظیر کے قریبی ساتھیوں کو اہمیت دیں گے لیکن درون خانہ راوی بتاتے ہیں کہ زرداری صاحب نے بلاول کو علامتی سربراہ بنے رہنے اور فی الحال پارٹی میں قائدانہ صلاحیتیں آزمانے سے پرہیز پر زور دیا۔ شاید یہی وہ پرہیزی لمحہ تھا جب سیاست کے کوہ قاف پر اترنے والے شہزادے بلاول نے اپنے اردگرد پھیلی ہوئی سیاسی بلاﺅں سے خوفزدہ ہو کر اس پرستان سے اچانک پرواز کر جانے کا فیصلہ کیا۔ اس بے اطلاعی پرواز کا راز ان متضاد بیانات سے آشکار ہوتا ہے جو اس رخصتی کے بعد ہمشیرگان بلاول، قمر زمان کائرہ، رحمن ملک اور فریال تالپور نے جاری کئے۔ ہمشیرگان نے کہا کہ بلاول عارضی طور پر بیرون ملک گئے ہیں، جلد واپس آ کر انتخابی مہم میں حصہ لیں گے۔ کائرہ نے انکشاف کیا کہ بلاول کو سکیورٹی خطرات لاحق تھے اس لئے ملک سے مختصر عرصہ کے لئے گئے ہیں۔ زرداری صاحب کے معتبر مشیر رحمن ملک نے دعویٰ کیا کہ بلاول سیر سپاٹے کےلئے بیرون ملک گئے ہیں۔ فریال تالپور نے فرمایا کہ فریال بلاول اختلافات کی افواہیں بے بنیاد ہیں۔ ایک مخبر چڑیا یہ خبر لائی ہے کہ قصرِ صدارت کا ایک خاص کارندہ جب کارِ مطلوبہ میں ناکام ہوگیا تو زرداری صاحب نے خود پر پرواز کھولا اور بلاول کے ڈیرے پر جا اترے۔ردّ ِ بلاکا کوئی مفاہمتی تعویز انہیں گھول کر پلایا اور کراچی واپس آگئے۔ پیر زرداری کے مفاہمتی تعویز کی کرشماتی تاثیر نے رنگ دکھایا اور بلاول یکم اپریل کو کراچی واپس آگئے۔ کل تک تو ہم نے اس خبر کو اپریل فول سمجھا۔ دو کو بھی ایسی خبریں دیکھیں اور سنیں تو شکوک کے پردے ہٹ گئے۔کسی شاعر نے شائد پیر زرداری کی شان ہی میں یہ شعر کہا ہوگا....
 یہ نقش ہے ہر ردّ ِ بلا کے لئے اکسیر
معلوم ہے سب کو میرے تعویز کی تاثیر

ای پیپر-دی نیشن