نگران امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنائیں
اہل صحافت کیلئے یہ بات باعث اطمینان ہے کہ پنجاب کی نگران وزارت اعلیٰ کیلئے ایک منجھے ہوئے صحافی‘ دانشور اور تجزیہ نگار کو چنا گیا۔ ان بڑے بڑے اینکر پرسنز کی طرف کسی نے ایک نظر دیکھنا بھی گوارا نہ کیا جو خود کو بقراط‘ اور افلاطون سمجھتے ہیں‘ ان میں ایک دو صاحبان تو ایسے ہیں جنہوںنے ماضی میں نجم سیٹھی کے خلاف کئی کالم لکھے اور ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے۔ ان کے نزدیک عاصمہ جہانگیر محب وطن تھیں اور نہ نجم سیٹھی لیکن آج اپنے پروگراموں میں عاصمہ جہانگیر کی مدبرانہ رائے سے استفادہ کر رہے ہوتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو خود کو نہایت ایماندار اور اعلیٰ پائے کے پروفیشنل سمجھتے ہیں لیکن جب اہل صحافت میں سے ایک غیر جانبدار شخص کی تلاش ہوئی تو نظر صرف ایک بندے یعنی نجم سیٹھی پر پڑی اور آج وہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے نگران وزیراعلیٰ بن گئے۔ نجم سیٹھی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے تبصروں کی کاٹ صدر زرداری کیلئے تیز نہیں ہوتی تھی اور رویہ نرم تھا گو کہ ان کے تعلقات میاں نواز شریف سے بھی خوشگوار ہیں اور ممکن ہے کہ وہ میاں صاحب کے دور حکومت میں اپنی گرفتاری کے صدمہ کو بھلا چکے ہوں خود ان کے بقول ایجنسیاں بھی ان پر ”مہربان“ رہی ہیں۔ زرداری حکومت کی مہربانی تو اس سے بھی ظاہر ہے کہ ان کی اہلیہ جگنو محسن کو دانشور قرار دے کر ستارہ امتیاز سے نواز دیا گیا خود نجم سیٹھی بھی ایوارڈ یافتہ ہیں۔نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ وہ پنجاب میں ایسے شفاف انتخاب کرائیں گے کہ لوگ یاد رکھیں گے۔ خداکرے کہ وہ اپنے دعوے پر پورا اتریں ملک بھر میں صاف شفاف اور دھاندلی سے پاک انتخابات عوام کی آرزو ہے جو شاید اس بار کسی حد تک پوری ہو جائے۔
نیشنل کرائم ڈیٹا بیس کی ایک رپورٹ کے مطابق سابقہ حکومت کے پانچ سالہ دور میں ملک کے اندر جرائم کی شرح میں ہولناک اضافہ ہوا‘ جسے ایک محتاط اندازے کے مطابق اٹھارہ فیصد تک قرار دیا گیا ہے۔ نیشنل کرائم ڈیٹا کے مطابق گذشتہ پانچ سال کے عرصے میں کل اکتیس لاکھ ستر ہزار آٹھ سو نواسی جرائم کی واداتیں نوٹ کی گئیں۔ 2007ءکے مقابلے میں 2013ءتک جرائم تیزی سے بڑھ کر اٹھارہ فیصد زائد ہوگئے۔ یہ دیگر تمام شعبوں کی طرح امن و امان کے معاملے میں بھی گذشتہ حکومت کی بدترین ناکامی کا ثبوت ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کا دور بھی مثالی نہیں تھا‘ بلکہ ایک لحاظ سے ان کی حکومت نے خرابی کے جو بیج بوئے تھے ان کے درخت اگنے سے پہلے ہی نام نہاد عوامی حکومت روکنے کی کوشش کرتی تو ملک میں ہولناک جرائم نہ بڑھتے۔ اب دنیا کو یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ امریکا کی سرپرستی میں کام کرنے والے پرویز مشرف کا آمرانہ دور ان کے بعد آنے والی نمائندہ حکومت کے دور سے بہتر تھا‘ کیونکہ اس کے بعد قیمتیں بھی بے تحاشا بڑھیں اور جرائم میں بھی ہولناک اضافہ ہوا۔ قومی اداروں کی زبردست تباہی اور بے روزگاری نے پڑھے لکھے نوجوانوں کو بھی جرائم کی جانب راغب کیا۔ پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی پارٹیاں اپنے عیش و عشرت اور عوام کی تباہی کا اعمال نامہ لیکر انتخابی میدان میں ایک بار پھر اتری ہیں۔ کیا قوم انہیں آئندہ بھی اپنی قسمت سے کھیلنے کا موقع دے گی؟ تجزیہ نگاروں کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی حکومت جاتے ہی پنجاب میں کرائمز اور رشوت میں بھی اضافہ شروع ہوگیا ہے۔ نگران وزیراعلیٰ جناب نجم سیٹھی نے حلف اٹھاتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ان کے لئے کرپشن ناقابل برداشت ہے وہ امن کیلئے سخت فیصلے کریں گے عوام کا ان سے مطالبہ ہے کہ وہ امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کیلئے اب سخت فیصلے کریں۔ پنجاب میں تعینات کئی پولیس افسر خادم پنجاب کے دور میں ہی کورس کرنے کیلئے لاہور چلے گئے تھے ان کی جگہیں ابھی خالی پڑی ہیں گذشتہ دنوں راقم کو پریس کلب جہلم میں جانے کا اتفاق ہوا تو مجھے وہاں روزنامہ جذبہ جہلم کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر ڈاکٹر خلیل جنگ راولپنڈی کے رپورٹر ڈاکٹر سہیل امتیاز خاں اور سینئر صحافیوں نے بتایا کہ ضلع جہلم میں چند دنوں سے کرائمز میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی کو پنجاب میں بڑھتے ہوئے کرائم کو بھی کنٹرول کرنا چاہئے اور پنجاب میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔
دریں اثناءنگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے وزارت داخلہ کو عام انتخابات کے دوران فول پروف سکیورٹی کو یقینی بنانے کیلئے ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سکیورٹی کے ادارے باہمی رابطوں کو مزید بہتر بنائیں اور چاروں صوبوں کے ساتھ بھی انٹیلی جنس تعاون کو مزید بڑھا دیا جائے۔ جہاں تک آنے والے عام انتخابات کا تعلق ہے اس حوالے سے امن و امان پر اٹھنے والے سوال کوئی نئے نہیں ہیں کیونکہ اخباری اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں نے انتخابات کو سبوتاژ کرنے کیلئے نہ صرف ملک کے اہم شہروں میں بڑے پیمانے پر حملوں کی منصوبہ بندی کرلی ہے بلکہ الیکشن پر اثر انداز ہونے کیلئے اہم سیاسی شخصیات کو قتل کرنے کے خدشات کا انکشاف بھی سامنے آیا ہے اور وزارت داخلہ نے اس ضمن میں خفیہ معلومات الیکشن کمیشن کو پہنچا دی ہیں جن کی بنیاد پر بعض ایسے سیاستدانوں کو جو مبینہ طور پر شدت پسندانہ حملوں کی زد پر ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے سیاسی جلسوں اور جلوسوں سے دور رہنے کے مشورے دیئے جا سکتے ہیں تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر نشان زد سیاسی رہنما عوامی رابطے ترک کردیں گے اور جلسوں‘ کارنر میٹنگز وغیرہ میں شرکت نہیں کریں گے تو الیکشن مہم پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے؟ اس کا تو واضح مطلب یہی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس قسم کی دھمکیوں کا مقصد بعض خاص سیاسی جماعتوں کو الیکشن سے دور رکھنا یا پھر چند خاص سیاسی جماعتوں کو انتخابی فوائد پہنچانا ہے۔ ایسی صورت میں صاف‘ شفاف ‘ غیر جانبدارانہ اور آزادانہ انتخابات کے دعوے کیونکر ممکن ہوسکتے ہیں۔ اس لئے سکیورٹی اداروں کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں تاکہ حقیقی معنوں میں صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کو ممکن بنایا جاسکے۔